سعودی ولی عہد کا پاکستان کے بعد بھارت کا پہلا دورہ
جاوید اختر، نئی دہلی
19 فروری 2019
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے بعد بھارت کے اپنے دو روزہ دورے پر آج منگل انیس فروری کو نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ کے حالیہ حملے کے پس منظر میں اس دورے کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔
اشتہار
سعودی عرب کے ولی عہد کے اس پہلے دورے کے دوران بھارت، نئی دہلی کے مطابق مبینہ طور پر سرحد پار سے کی جانے والی، دہشت گردی کا معاملہ بھی اٹھائے گا جب کہ دونوں ممالک دفاعی اور اقتصادی تعلقات کے حوالے سے کئی معاہدوں پر دستخط بھی کریں گے۔
پرنس محمد بن سلمان پاکستان سے بھارت جانے کے بجائے اب ریاض سے دہلی آ رہے ہیں۔ بھار ت میں اسے سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیوں کہ پلوامہ حملے کے بعد، جس میں 45 بھارتی سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے، بھارت نے سعودی ولی عہد کے اسلام آباد سے دہلی آنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق محمد بن سلمان مقامی وقت کے مطابق منگل کو رات نو بجے نئی دہلی پہنچیں گے اور کل بدھ کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ براہ راست اور پھر وفود کی سطح پر بات چیت کریں گے۔
اسلام آبادکے بجائے ریاض سے نئی دہلی
سفارتی امور کے ماہر ریاض الشکر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد سعودی ولی عہد پیر کو ریاض لوٹ گئے تھے اور اب منگل کو ریاض سے نئی دہلی آ رہے ہیں۔ یہ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کے تحفظات کے سعودی قیادت کی جانب سے تسلیم کیے جانے کا ثبوت ہے۔‘‘ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے حوالے سے ریاض الشکر کا کہنا تھا، ’’گزشتہ ماہ ریاض میں دونوں ملکوں کی مشترکہ دفاعی تعاون کمیٹی کی چوتھی میٹنگ ہوئی تھی۔ دفاعی تعاون اب دونوں ریاستوں کے باہمی تعلقات کا ایک اہم حصہ ہو گا۔ دونوں ملک دفاعی ساز وسامان کی مشترکہ تیاری کے امکانات بھی تلاش کریں گے۔ وہ مشترکہ فوجی مشقوں پر بھی غور کریں گے اور رواں سال ہی ان کی طرف سے پہلی مشترکہ بحری فوجی مشقیں کیے جانے کی بھی امید ہے۔‘‘
اس دوران بھارت نے سعودی عرب کے ساتھ بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ میں اقتصادی امور کے سیکرٹری ٹی ایس تریمورتی نے ایک میڈیا بریفنگ کے دوران کہا، ’’دونوں ممالک کے مابین سرمایہ کاری، سیاحت، تعمیرات اور اطلاعات و نشریات کے شعبوں میں پانچ معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اس دورے سے بھارتی سعودی دوطرفہ تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔‘‘
اسٹریٹیجک پارٹنرشپ
تریمورتی نے مزید کہا، ’’بھارت ان آٹھ اسٹریٹیجک پارٹنر ممالک میں سے ایک ہے، جن کے ساتھ سعودی عرب سیاست، سکیورٹی، تجارت، سرمایہ کاری اور ثقافت کے شعبوں میں باہمی شراکت کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں بھارت دونوں ملکوں کے مابین وزارتی سطح پر ایک اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کونسل کے قیام کو بھی حتمی شکل دے رہا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اس سے ہماری اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مزید تقویت ملے گی اور ہم اپنی بات چیت کو مرکوز اور عملی انداز میں آگے بڑھا سکیں گے۔‘‘
خیال رہے کہ سعودی عرب بھارت کو دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے بارے میں بھی اطلاعات اور خفیہ معلومات فراہم کرتا ہے۔ 2016ء میں وزیر اعظم مودی کے دورہ ریاض کے دوران اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ بھارتی حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کے ساتھ بات چیت کے دوران بھارت دہشت گردوں کو پاکستان سے مبینہ مالی امداد کا معاملہ بھی پوری شدت سے اٹھائے گا اور جو مشترکہ بیان جاری کیا جائے گا، اس میں بھی دہشت گردی اور اس سے نمٹنے کے حوالے سے سخت موقف کا اظہار دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
نئی دہلی میں حکومتی ذرائع کا خیال ہے کہ سعودی عرب اب کشمیر اور سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کے متعلق پاکستان کے بیانیے کو تسلیم نہیں کرتا، جو بھارت کے لیے اطمینان کی بات ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے اعلیٰ اہلکار ٹی ایس تریمورتی کا کہنا تھا، ’’سعودی عرب نے پلوامہ میں چودہ فروری کو بھارتی سکیورٹی دستوں پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ ہم سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کے لیے سعودی عرب کو سراہتے ہیں۔‘‘
کیا سعودی عرب بدل رہا ہے ؟
سعودی عرب نے سال 2017 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ قدامت پسند معاشرہ تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سال سعودی عرب میں کون کون سی بڑی تبدیلیاں آئیں دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: 8ies Studios
نوجوان نسل پر انحصار
سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے 32 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں جو اب تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں اور مالی بدعنوانیوں سے بھی تنگ ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Al Nasser
عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت
اس سال ستمبر میں سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ اب عورتوں کے گاڑی چلانے پر سے پابندی اٹھا دی گئی ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں عورتوں کا گاڑی چلانا ممنوع تھا۔ 1990ء سے اس ملک میں سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا جنھوں نے ریاض میں عورتوں کے گاڑیاں چلانے کے حق میں مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء
اگلے سال جون میں عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد وہ گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکل بھی چلا سکیں گی۔ یہ ان سعودی عورتوں کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی جو ہر کام کے لیے مردوں پر انحصار کرتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
اسٹیڈیمز جانے کی اجازت
2018ء میں عورتوں کو اسٹیڈیمز میں میچ دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ ان اسٹیڈیمز میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ مختص کی جائے گی۔ 2017ء میں محمد بن سلمان نے عوام کا ردعمل دیکھنے کے لیے عورتوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے ریاض میں قائم اسٹیڈیم جانے کی اجازت دی تھی جہاں قومی دن کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سنیما گھر
35 سال بعد سعودی عرب میں ایک مرتبہ پھر سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ سن 1980 کی دہائی میں سنیما گھر بند کر دیے گئے تھے۔ اس ملک کے بہت سے مذہبی علماء فلموں کو دیکھنا گناہ تصور کرتے ہیں۔ 2018ء مارچ میں سنیما گھر کھول دیے جائیں گے۔ پہلے سعودی شہر بحرین یا دبئی جا کر بڑی سکرین پر فلمیں دیکھتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/A. Demianchuk
کانسرٹ
2017ء میں ریپر نیلی اور گیمز آف تھرونز کے دو اداکاروں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جان ٹراولٹا بھی سعودی عرب گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے مداحوں سے ملاقات کی اور امریکی فلم انڈسٹری کے حوالے سے گفتگو بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi
بکینی اور سیاحت
سعودی عرب 2018ء میں اگلے سال سیاحتی ویزے جاری کرنا شروع کرے گا۔ اس ملک نے ایک ایسا سیاحتی مقام تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے جہاں لباس کے حوالے سے سعودی عرب کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کہہ چکے ہین کہ سعودی عرب کو ’معتدل اسلام‘ کی طرف واپس آنا ہوگا۔
تاہم بھارت ہی میں کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا، اس میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی تھی اور بھارت کے تحفظات کا کوئی عکس دکھائی نہیں دیا تھا۔ اس کے برعکس دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی گئی تھی۔ اسی طرح مشترکہ بیان میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے، نیز سکھ زائرین کے لیے کرتارپور کوریڈور کھولنے پر عمران خان کی کوششوں کی تعریف بھی کی گئی تھی۔ ساتھ ہی پاکستان اور بھارت پر زور دیا گیا تھا کہ امن و استحکام کو یقینی بنانے اور خطے کے تمام دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لیے بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
ان تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بات کی امید بہت کم ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیر اعظم نریندر مودی کی بات چیت کے بعد جاری کیے جانے والے کسی مشترکہ بیان میں ’سرحد پار سے جاری دہشت گردی‘ جیسے الفاظ کا کوئی استعمال کیا جائے۔ 2016ء میں مودی کے دورہ ریاض کے موقع پر بھی جاری کردہ بیان میں اس طرح کا کوئی جملہ استعمال نہیں کیا گیا تھا۔
بھارتی قیدیوں کی رہائی کی اپیل
نئی دہلی میں سول سوسائٹی نے امید ظاہر کی ہے کہ وزیر اعظم مودی سعودی ولی عہدکے ساتھ بات چیت کے دوران ان 2250 بھارتی شہریوں کا معاملہ بھی ضرور اٹھائیں گے، جو سعودی عرب کی جیلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے بعض بھارتی باشندے تو بہت معمولی جرائم میں ایک عرصے سے جیلوں میں ہیں۔ سول سوسائٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کو چاہیے کہ وہ سعودی قیادت سے انسانی بنیادوں پر ان قیدیوں کی رہائی کی اپیل کرے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے دورے کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی جیلوں میں بند تقریباﹰ 2100 پاکستانی شہریوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا۔
حالیہ برسوں میں سعودی عرب اور بھارت کے باہمی اقتصادی تعلقات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب اس وقت بھارت کا چوتھا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ملک ہے۔2017 اور 2018 کے مالی سال کے دوران دونوں ملکوں کے مابین 27.48 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی۔ بھارت کی خام تیل کی ضروریات کاسترہ فیصد اور مائع گیس کی ضروریات کا بتیس فیصد حصہ سعودی عرب ہی پورا کرتا ہے۔ بھارتی ریاست مہاراشٹر میں تیل صاف کرنے کا کارخانہ قائم کرنے کے لیے دونوں ممالک نے 44 بلین ڈالرکے ایک مشترکہ منصوبے پر دستخط بھی کیے ہیں تاہم مختلف وجوہات کے باعث مقامی باشندے اور کئی غیر حکومتی تنظیمیں اس کارخانے کے قیام کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟