سعودی ولی عہد کی پاکستان آمد، مقصد دوستی يا ذاتی مفادات؟
17 فروری 2019
شہزادہ محمد بن سلمان اپنے اولين دورے پر پاکستان پہنچ گئے ہيں۔ وہ پاکستان ميں وسيع تر سرمايہ کاری کرنے والے ہيں تاہم ماہرين کا کہنا ہے کہ ان کے ايشيائی ملکوں کے اس دورے کے مقاصد ميں ذاتی اور اقتصادی فوائد بھی کارفرما ہيں۔
اشتہار
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد پہنچ گئے ہيں جہاں ان کے شاندار استقبال کے ليے کئی دنوں سے تيارياں جاری تھيں۔ پاکستانی وزير اعظم عمران خان ملکی کابينہ کے کئی ارکان سميت فوجی سربراہ جنرل قمر جاويد باجوہ کے ہمراہ نور خان ايئر بيس پر ان کے استقبال کے ليے موجود تھے۔ اس موقع پر سعودی شہزادے کو فوجی دستوں کی جانب سے ’گارڈ آف آنر‘ بھی پيش کيا گيا۔ سعودی ولی عہد اپنے خصوصی طيارے پر اتوار سترہ فروری کی شام کے وقت پہنچے۔ ان کی آمد سے کچھ دير قبل ہی سعودی وزير مملکت عادل الجبير بھی اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔ سعودی ولی عہد کی آمد ہفتے کے روز متوقع تھی تاہم وہ ايک روز کی تاخير سے آج اتوار کو پاکستان پہنچے۔
محمد بن سلمان اتوار سترہ فروری سے پير اٹھارہ فروری تک پاکستان ميں ہوں گے۔ اس دوران وہ پاکستانی صدر عارف علوی، وزير اعظم عمران خان اور فوجی چيف جنرل قمر جاويد باجوہ سے ملاقاتيں کريں گے۔ علاوہ ازيں میڈیا رپورٹوں کے مطابق وہ پاکستان ميں دس بلين ڈالر کی سرمايہ کاری کا اعلان بھی کریں گے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ پر نشر کردہ رپورٹوں کے مطابق اس دوران دفاع او معيشت کے متعدد معاہدوں کو حتمی شکل دی جائے گی اور يہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہيں پاکستان کے اعلٰی ترين سويلين ايوارڈ سے بھی نوازا جائے گا۔
پاکستان کے بعد سعودی ولی عہد بھارت جائيں گے، جہاں ان کی وزير اعظم نريندر مودی اور وزير برائے پيٹروليم دھرمندرا پردھان سے ملاقاتيں طے ہيں۔ بعد ازاں آئندہ جمعرات اور جمعے کو چين کے دورے کے ساتھ ان کا يہ دورہ اختتام پذير ہو گا۔ سعودی ولی عہد کو ملائيشيا اور انڈونيشيا کے بھی مختصر دورے کرنے تھے تاہم ان دوروں کی منسوخی کے بارے ميں اعلان ہفتے کو بغير کوئی وجہ بيان کيے کر ديا گيا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان خطے کا دورہ ايک ايسے موقع پر کر رہے ہيں جب روايتی حريف ممالک پاکستان اور بھارت کے مابين حاليہ پلوامہ حملے کے تناظر ميں سخت کشيدگی پائی جاتی ہے۔ بھارتی حکومت نے پاکستان پر اس گروہ کی پشت پناہی کا الزام عائد کيا ہے، جس کا جنگجو اس حملے ميں ملوث تھا۔ دريں اثناء سعودی عرب کے حريف ملک ايران نے بھی پاکستان پر ايک ايسے گروہ کی معاونت کا الزام لگايا ہے، جو مشرقی ايران ميں حملے کرتا رہتا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
دورے کے مقاصد کيا ہيں؟
سياسی تجزيہ کاروں کے مطابق پچھلے سال دسمبر ميں جنوبی امريکی ملک ارجنٹائن ميں منعقدہ ترقی يافتہ ملکوں کے گروپ ’جی ٹوئنٹی‘ کے اجلاس ميں شرکت کے بعد ولی عہد محمد بن سلمان کا سب سے طويل بين الاقوامی دورہ مغربی رياستوں کے ليے درست وقت پر يہ پيغام ہے کہ ان کے ايشيا ميں اب بھی دوست ہيں۔ سنگاپور کے ’راجارتنم اسکول آف انٹرنيشنل اسٹڈيز‘ سے وابستہ محقق جيمز ايم ڈورسی کا ماننا ہے کہ اس دورے کا مقصد يہ ثابت کرنا ہے کہ ولی عہد، سعودی بادشاہ کے بعد رياض حکومت کے سب سے اعلٰی نمائندہ ہيں اور بين الاقوامی سطح پر اب بھی ان کی ساکھ ہے۔
چينی ’انسٹيٹيوٹ برائے انٹرنيشنل اسٹڈيز‘ ميں مشرق وسطٰی سے متعلق محکمے کے ڈائريکٹر لی گوؤفو کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے تناظر ميں مغربی ممالک ميں اب بھی شہزادہ سلمان کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہيں اور ايسے ميں ان ممالک کے دورے ذرا مشکل ثابت ہو سکتے ہيں۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’مغربی ممالک کے دورے نہ کرنے کا يہ مطلب نہيں کہ وہ مشرقی ممالک بھی نہ جا سکيں۔ يہ بھی اہم ہے کہ رياض حکومت اپنی حکمت عملی تبديل کر رہی ہے اور ايشيا ہی اب آئندہ کی سفارت کاری ميں مرکزی توجہ کا حامل خطہ ہے۔‘‘
’امريکن انٹرپرائز انسٹيٹيوٹ‘ سے وابستہ کيرن ينگ کہتی ہيں، ’’خليجی خطے ميں توانائی اور بنيادی ڈھانچے کی بہتری کے ليے سرمايہ کاری کا بلواسطہ ذريعہ ايشيا ہے اور مستقبل ميں عالمی اقتصاديات ميں ترقی بھی ايشيا ہی سے ہو گی۔‘‘ ان کے بقول صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ دیگر خلیجی ممالک کا جھکاؤ ايشيا کی جانب بڑھے گا جو کہ ایک ’منطقی‘ رجحان ہے۔
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟