امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے انسداد بدعنوانی کے اقدامات کرتے ہوئے متعدد شہزادوں اور وزراء کی گرفتاری کی حمایت کی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مبصرین کا کہنا ہےکہ سعودی ولی عہد ان اقدامات کے ذریعے ملکی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط تر بناتے جا رہے ہیں تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے مطابق انسدادِ بدعنوانی کی یہ کارروائی ملکی بقا کے لیے ضروری ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب میں سرمایہ کاروں، وزراء اور متعدد شہزادوں کی گرفتاری کی حمایت، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کی آئینہ دار ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد واشنگٹن اور ریاض کے درمیان تعلقات میں ڈرامائی بہتری دیکھی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ سعودی ولی عہد سلمان اور ڈونلڈ ٹرمپ، دونوں رہنماؤں کا ایران سے متعلق سخت موقف بھی ہے۔
سعودی اصلاحات یا پھر اقتدار کی رسہ کشی
سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں اور سابق وزراء کو بد عنوانی کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو کمزور کر کے حکومت پر گرفت مضبوط کر سکیں گے؟
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
انسداد بد عنوانی کمیٹی کا قیام
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press
ملکی بہتری یا پھر ممکنہ حریفوں کی زباں بندی؟
نئی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس مختلف طرز کے اختیارات ہیں۔ ان اختیارات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، اثاثوں کو منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ پرنس سلمان نے حال ہی میں ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
شہزادہ الولید بن طلال کے ستارے گردش میں
الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سرکاری تصدیق نہیں ہوئی
گرفتار شدہ افراد میں اطلاعات کے مطابق سابق وزیر خزانہ ابراہیم الاصف اور شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری بھی شامل ہیں۔ تاہم اس بارے میں سعودی حکومت کا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اتنا بہت کچھ اور اتنا جلدی
دوسری جانب نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے بھی اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ ریاض ہی میں موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/M. al-Sayaghi
5 تصاویر1 | 5
پیر کے روز ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ انہیں شاہ سلمان اور سعودی ولی عہد پر بھرپور اعتماد ہے۔ سعودی عرب میں اشرافیہ کے خلاف اس انداز کی سخت کارروائی کی نظیر سعودی عرب کی جدید تاریخ میں نہیں ملتی۔
ٹرمپ کا اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہنا تھا، ’’وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ جنہیں سخت برتاؤ کا سامنا ہے، برسوں سے اپنے ملک کو نچوڑ رہے تھے۔‘‘
ڈرائیونگ کی اجازت ملنے پر سعودی خواتین کے ارادے کیا ہیں؟
01:40
یہ حالیہ کارروائی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اٹھائے جانے والے متعدد اقدامات میں سے ایک ہے۔ محمد بن سلمان چاہتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے ہاتھ میں لیں اور عالمی سطح پر سعودی اثرورسوخ میں اضافہ کریں۔
ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر کیے بغیر روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ محمد بن سلمان سعودی پالیسی بنانے میں کلیدی کردار کے حامل ہو چکے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق حالیہ کچھ عرصے میں سعودی ولی عہد نے انتہائی جارحانہ انداز سے اپنے تمام مخالفین کو اپنے راستے سے الگ کر دیا ہے۔
روئٹرز نے امریکی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ سعودی ولی عہد شاہی خاندان پر عوامی اعتبار میں اضافہ چاہتے ہیں اور ملکی اقتصادیات کو تنوع کی جانب لے جانے کے ساتھ ساتھ سخت گیر مذہبی بیانیےکی بجائے سماجی اصلاحات کرتے ہوئے اعتدال پسند معاشرے کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔