سعودی عرب پر برسوں سے قدرے بڑی عمر کے حکمران برسر اقتدار رہے ہیں۔ اُن کے ولی عہد بھی زیادہ عمر کے ہی ہوتے تھے۔ پہلی مرتبہ سعودی بادشاہ نے اکتیس سالہ نوجوان شہزادہ محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کیا۔
اشتہار
سعودی عرب کے بظاہر روشن خیال سمجھے جانے والے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جہاں سماجی اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا وہاں نسائی حقوق کی سرگرم خواتین کارکنوں کو حراست میں بھی لیا گیا۔ اسی طرح ایک جانب وہ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی کوشش میں ہیں تو دوسری جانب انہوں نے کاروباری حلقے کے کئی افراد کو جیل میں ڈال رکھا ہے۔
پرنس محمد بن سلمان کو سعودی عرب کے نوجوانوں کے ایک چہرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی ولی عہد کے مسکراتے چہرے کو عالمی لیڈروں اور کاروباری اداروں کے سربراہوں کے ساتھ ملاقاتوں میں دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اس مسکراہٹ کے پس پردہ اُن کا تاریک پہلو بھی مخفی ہے۔
انتیس برس کی عمر میں وہ اپنے ملک کے وزیر دفاع بنائے گئے تھے اور اس دور میں انہوں نے یمن کے ایران نواز حوثی ملیشیا کے ساتھ جنگ شروع کر دی تھی۔ اس جنگی مہم کے دوران انہوں نے ایک عسکری اتحاد بھی قائم کیا اور یمن پر کیے گئے فضائی حملوں میں انسانی بستیوں کی تباہی کے ساتھ خواتین اور بچوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
سعودی ولی عہد نے حال ہی میں بزنس ٹیلی وژن چینل بلوم برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ مشرق وسطیٰ میں حوثی ملیشیا کی صورت میں ایک اور ’حزب اللہ‘ کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے یمنی جنگ میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کے تناظر میں کہا کہ ہر جنگ میں غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور یہ بھی ایسے ہی ہے۔ یمن میں شہری ہلاکتوں پر اُن کے مغربی اتحادی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے خطے میں سعودی عرب اور ایران ایک ایسی سیاسی و عسکری کشمکش میں مصروف ہیں جس کا مستقبل میں بھی برسوں جاری رہنے کا امکان ہے۔ گزشتہ برس لبنانی وزیراعظم سعد الحریری کے سعودی عرب میں قیام کے دوران منصب وزارت عظمیٰ سے اچانک استعفے اور پھر بعد کی صورت حال بھی شہزادہ محمد کے لیے کسی حد تک جگ ہنسائی کا باعث بنی تھی۔ وہ ایرانی قیادت کے لیے بھی سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو نازی ایڈولف ہٹلر سے تشبیہ دی تھی۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔