1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی ولی عہد کے لیے مسئلہ، انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزياں

30 اگست 2020

سعودی جيلوں ميں زير حراست انسانی حقوق کے کارکنوں اور حکومت کے ناقدين کے ان کے اہل خانہ کے ساتھ رابطے محدود کیے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی ایسی مسلسل خلاف ورزياں ولی عہد محمد بن سلمان کے ليے مسئلہ بن سکتی ہيں۔

Saudi-Arabien Kronprinz Mohammed bin Salman
تصویر: picture-alliance/abaca/Balkis Press

سعودی حکام حکومت کے ناقدين کے گرد گھيرا تنگ کرتے جا رہے ہيں۔ سرکاری موقف سے اختلاف رکھنے والوں کو ہدف بنانے کے عمل ميں حاليہ دنوں ميں تيزی آئی ہے۔ کئی متاثرہ خاندانوں کا يہ الزام بھی ہے کہ ان کے زير حراست ارکان کے ساتھ ان کے رابطے محدود کیے جا رہے ہیں۔

سعودی شہزادہ ڈھائی سال سے قید بےجا میں، اقوام متحدہ کو شکایت

آل سعود سے متعلق وہ حقائق، جو آپ کو جاننے چاہییں

ملک کے سابق انٹيليجنس چيف سعد الجباری کے خاندان کے ايک اور رکن کو اس ہفتے گرفتار کر ليا گيا۔ الجباری کے بھائی اور دو بيٹوں کو پہلے ہی گرفتار کيا جا چکا ہے۔ سابق انٹيليجنس چيف نے اسی ماہ امريکا ميں ایک رپورٹ درج کرائی تھی کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے انہيں قتل کروا دینے کی کوشش کی تھی۔ ان کے بیٹے خالد الجباری نے بدھ کے روز اپنی ايک ٹويٹ ميں دعویٰ کيا تھا کہ ان کے خاندان کے ايک اور رکن کی گرفتاری دراصل انہيں ڈرانے دھمکانے کے لیے ایک ہتھکنڈا ہے۔


اس کے علاوہ کئی ديگر زير حراست ناقدين کے اہل خانہ نے بھی يہ شکايت کی ہے کہ حاليہ مہينوں ميں ان کے اپنے اپنے خاندانوں سے رابطے کم ہو گئے ہيں۔ خواتین کے حقوق کے ليے کام کرنے والی لجين الهذلول کی بہن کے مطابق وہ اور ان کے ديگر اہل خانہ کافی فکر مند ہيں کيونکہ ان کی اپنی ہمشیرہ الهذلول سے جون کی نو تاریخ سے اب تک بالکل کوئی بات نہيں ہو سکی۔

لينا الهذلول نے ڈی ڈبليو سے بات چیت میں کہا، ''يہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ اگر ان (حکومت) کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہيں، تو حکام زیر حراست افراد کے ان کے خاندانوں سے رابطے محدود کيوں کرتے جا رہے ہيں۔‘‘ انہوں نے مزيد کہا کہ جب پہلی مرتبہ حکام کی طرف سے لجين الهذلول سے رابطے روک دیے گئے تھے، تو اس کی وجہ يہ تھی کہ انہيں تشدد کا نشانہ بنايا جا رہا تھا اور اب بھی شايد ايسا ہی ہو رہا ہو۔

شہزادی بسما بنت سعود اور سابق ولی عہد محمد بن نائف کے اہل خانہ کو بھی ان سے رابطہ کرنے سے روک ديا گيا ہے۔ بنت سعود نے رواں سال اپريل ميں اپنی رہائی کے ليے محمد بن سلمان سے اپيل کی تھی اور اس کے بعد سے ان کا کچھ اتا پتا نہيں۔ امریکا کے بلوم برگ ٹی وی کی ايک حاليہ رپورٹ کے مطابق اصلاحات پسند معلم سلمان العودہ، جنہيں تين برس قبل گرفتار کيا گيا تھا اور جنہيں سزائے موت کا سامنا ہے، کی بھی کوئی خبر نہيں۔ ڈی ڈبليو نے ان کے بارے ميں جاننے کے ليے سعودی وزارت مواصلات سے رابطہ کيا مگر کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

تصویر: picture-alliance/abaca/A. Rabbo Ammar

ممکنہ طور پر 'بہت مہنگا سودا‘

ماہرين اس بارے ميں مختلف آراء رکھتے ہيں کہ آيا ایسے متنازعہ اقدامات طاقت ور سعودی ولی عہد کے ليے مستقبل میں مسئلہ بن سکتے ہيں۔ تنقيدی آوازوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اقدامات رياض حکومت کے قريب ترين اتحادی ملک امريکا کے ساتھ باہمی تعلقات میں خرابی کا باعث بھی بن سکتے ہيں۔ امریکی ڈيموکريٹک پارٹی کے صدارتی اميدوار جو بائيڈن پچھلے سال ہی يہ دھمکی دے چکے ہيں کہ رياض کو اسلحے کی فروخت معطل بھی کی جا سکتی ہے۔ ايسے ميں انسانی حقوق کی مزيد خلاف ورزياں بائيڈن کے موقف کو سخت تر بنا سکتی ہيں۔

دريں اثناء امريکا ميں چند سينيٹرز بھی الجباری کے اہل خانہ کی رہائی کے ليے صد ڈونلڈ ٹرمپ پر دباؤ ڈال رہے ہيں۔ سابق سعودی انٹيليجنس چيف سعد الجباری ايک عرصے تک امريکی خفيہ اداروں کی معاونت کرتے رہے ہيں۔ دوسری طرف سعودی عرب میں زیر حراست شہزادہ سلمان بن عبدالعزيز بن سلمان کی رہائی کی کوششيں بھی جاری ہيں۔

جرمنی نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے پراسرار قتل کے بعد سعودی عرب کو ہتھياروں کی فروخت روک دی تھی۔ اس فيصلے پر رواں سال دسمبر ميں نظر ثانی متوقع ہے اور يہی وجہ ہے کہ ماہرين سمجھتے ہيں جرمنی انسانی حقوق کے حوالے سے کئی معاملات میں سعودی عرب پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔

سعودی عرب: گھریلو تشدد سے پریشان دو بہنیں فرار

01:50

This browser does not support the video element.

يورپی حلقوں ميں شديد تشويش

يورپی پارليمان کی رکن اور عرب ممالک کے ساتھ روابط پر نگاہ رکھنے والے گروپ (DARP) کی ايک رکن ايوا کائلی کا کہنا ہے، ''اگر يہ (حکمران) شاہی خاندان، يعنی اپنے ہی خاندان کے ارکان کے ساتھ ايسا سلوک کرتے ہيں، تو سوچيں دوسروں کے ساتھ کيا ہو رہا ہو گا۔‘‘

برطانيہ ميں قائم چيٹم ہاؤس انسٹيٹيوٹ سے وابستہ نيل کوئيليم کے بقول سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو ايسے اقدامات سے بچنا چاہيے کيونکہ ان کے پاس زيادہ گنجائش نہيں ہے۔ نيل کوئيليم  کے بقول اگر انسانی حقوق کی مبينہ خلاف ورزياں رک جائيں اور زير حراست سياسی قيديوں کی رہائی عمل ميں آ جائے، تو جلد ہی لوگ سب کچھ بھول جائيں گے اور سعودی ولی عہد کو اس کا سياسی اور اقتصادی حوالوں سے فائدہ ہی ہو گا۔

ع س / م م )ٹام ايلنسن(

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں