سعودی کراؤن پرنس نے ایرانی سپریم لیڈر کو ’ہٹلر‘ قرار دے دیا
عاطف بلوچ، روئٹرز
24 نومبر 2017
سعودی کراؤن پرنس نے ایرانی سپریم لیڈر کو ’مشرق وسطیٰ کا نیا ہٹلر‘ قرار دے دیا ہے۔ حالیہ عرصے میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں جبکہ محمد بن سلمان کا یہ نیا بیان جلتی پر تیل کا کام کر سکتا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایک تازہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ سعودی ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ’مشرق وسطیٰ کا ہٹلر‘ قرار دے دیا ہے۔
نیویارک ٹائمز میں جمعرات کو شائع ہونے والے اس انٹرویو میں محمد بن سلمان نے کہا کہ آیت اللہ علی خامنہ ای کی سربراہی میں ایران خطے میں اپنا اثرروسوخ بڑھانے کی کوشش میں ہے اور اسے روکنے کی کوشش کی جانا چاہیے۔
محمد بن سلمان نے مزید کہا کہ انہوں نے یورپ سے سیکھا ہے کہ جارح شخص کے مطالبات کو تسلیم کرتے جانا مناسب نہیں ہے۔ اسی تناظر میں انہوں نے کہا کہ وہ ایران میں ایک ’نیا ہٹلر‘ نہیں چاہتے جو مشرق وسطیٰ میں تباہی پھیلا دے۔
محمد بن سلمان کا یہ نیا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب سعودی عرب اور ایران کے مابین تناؤ کی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری کا وہ بیان بھی بنا، جس میں انہوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ لبنان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش میں ہے۔
انہوں نے اپنی جان کو لاحق مبینہ خطرات کے تناظر میں وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اب انہوں نے اس فیصلے کو معطل کر دیا ہے۔ تاہم حزب اللہ نے اس پیشرفت کو سعودی ’سازش‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
دوسری طرف یمن میں جاری خانہ جنگی بھی ان دونوں ممالک کے مابین اختلاف کی ایک اہم وجہ قرار دی جاتی ہے۔ مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں فعال ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔
اس ڈھائی برس کے عرصے میں یہ فوجی اتحاد یمن میں ہزاروں فضائی حملے کر چکا ہے۔ محمد بن سلمان نے اس جنگ کے حوالے سے کہا ہے کہ سعودی عسکری اتحاد کی پوزیشن مضبوط ہے اور وہ یمن کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا چکا ہے۔
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔