1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سفارتخانے پر قبضے کا واقعہ عشروں بعد بھی زندہ

Spencer Kimball / امجد علی22 اپریل 2014

ٹھیک پینتیس سال پہلے بائیس اپریل 1979ء کو ایرانی طلبہ کے ایک گروپ نے دارالحکومت تہران میں واقع امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں موجود باون امریکیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ یہ تنازعہ عشروں بعد بھی زندہ ہے۔

1979ء میں تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کے دوران یرغمال بنائے گئے امریکیوں کا ایک منظر
1979ء میں تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کے دوران یرغمال بنائے گئے امریکیوں کا ایک منظرتصویر: Fars

پینتیس سال پہلے تہران میں امریکی سفارت خانے پر ایرانی طلبہ کا قبضہ پورے چار سو چوالیس روز تک جاری رہا تھا۔ وہ اُس اسلامی انقلاب کا ابتدائی دور تھا، جس میں شاہ رضا شاہ پہلوی کی امریکا نواز آمریت کو رخصت ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا اور اُس کی جگہ آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایک مذہبی حکومت برسرِاقتدار آ گئی تھی۔

اقوام متحدہ کے لیے ایران کے نامزد سفیر حامد ابوطالبی، جنہیں امریکا نے ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا ہےتصویر: Reuters

اب عشروں بعد امریکا نے اقوام متحدہ کے لیے نامزد ایرانی سفیر حامد ابوطالبی کو اس جواز کے ساتھ ویزہ دینے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ 1979ء میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کی اس کارروائی میں ملوث رہے تھے۔ ابوطالبی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے طلبہ کے اُس گروپ کے لیے محض ایک مترجم کے طور پر کام کیا تھا۔ گزشتہ منگل کے روز واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے دفتر خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے کہا تھا، ’1979ء کے واقعات یقینی طور پر امریکی عوام کے لیے بے حد اہمیت رکھتے ہیں اور اُن واقعات میں اُن (ابوطالبی) کے کردار کی بناء پر امریکا اُنہیں ویزا جاری نہیں کر سکتا‘۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی امور کی ایک ماہر ایلی گراں مایہ کہتی ہیں کہ اگرچہ ابوطالبی کا انتخاب کوئی بہت دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے تاہم اس فیصلے کا مقصد امریکا کو مشتعل کرنا نہیں تھا۔ خارجہ امور کی یورپی کونسل سے وابستہ گراں مایہ نے کہا:’’پہلے اُنہوں نے اسی شخص کو یورپی یونین بھیجا تھا، جو کہ اس سے پہلے متعدد ممالک میں سفیر بھی رہ چکا ہے۔ کہیں بھی اُس کے سابقہ پس منظر کو اُس طرح سے موضوع نہیں بنایا گیا، جیسا کہ امریکا میں بنایا گیا ہے۔ اگر ایران درحقیقت امریکا کو مشتعل کرنا چاہتا تو ایسی کئی شخصیات تھیں، جن کا پس منظر حامد ابوطالبی سے کہیں زیادہ مشکل ہو سکتا تھا۔‘‘ واضح رہے کہ امریکا نے ایک بار ابوطالبی کو 1990ء کے عشرے میں نیویارک میں اقوام متحدہ جانے کے لیے ویزا جاری کیا تھا۔

یہ تنازعہ ایک ایسے نازک وقت پر سامنے آیا ہے، جب سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل رکن ممالک اور جرمنی ایران کے ایٹمی پروگرام پر کوئی حتمی سمجھوتہ تشکیل دینے کی کوشش میں ہیںتصویر: Getty Images

ابوطالبی کو ویزا نہ دینے کا موجودہ فیصلہ امریکی کانگریس میں اتفاقِ رائے سے اُس قانون کی منظوری کے بعد کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کسی بھی ایسے نمائندے کو امریکا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی، جو جاسوسی یا دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہ چکا ہو یا امریکی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہو۔ اس قانون کا مقصد ہی ابو طالبی کو امریکا جانے سے روکنا تھا۔ اس مسودہء قانون کے ایک تائید کنندہ سینیٹر ٹَیڈ کروز نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ ’ہم ایک ملک کے طور پر ایران جیسی سرکش ریاستوں کو یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس طرح کا اشتعال انگیز اور معاندانہ رویہ برداشت نہیں کریں گے‘۔

دوسری جانب ایران نے ابوطالبی کی جگہ کسی اور شخصیت کو اس عہدے پر نامزد کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ’کمیٹی آن ریلیشنز‘ کے ہاں ایک درخواست دائر کر دی ہے۔ یہ کمیٹی اقوام متحدہ اور ا مریکا کے درمیان تعلقات پر نظر رکھتی ہے۔ اس کمیٹی کے نام اپنے ایک خط میں اقوام متحدہ میں ایران کے نائب سفیر حسین دہقانی نے لکھا ہے:’’امریکی حکومت کا یہ فیصلہ کثیر ملکی سفارت کاری پر درحقیقت منفی اثرات مرتب کرے گا اور ایک ایسی خطرناک مثال قائم کر دے گا، جس سے بین الحکومتی تنظیموں اور اُن کے رکن ملکوں کی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔‘‘

ایران اور امریکا کے درمیان یہ تنازعہ ایک ایسے نازک وقت پر سامنے آیا ہے، جب سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل رکن ممالک اور جرمنی ایران کے ایٹمی پروگرام پر کوئی حتمی سمجھوتہ تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں