شیریں مزاری نے افغانستان میں تعینات امریکی سفیر کی ایک ٹویٹ جس میں انہوں نے عمران خان کے افغانستان سے متعلق بیان پر تنقید کی تھی،کا جواب دیتے ہوئے انہیں’’پست قامت‘‘ والا شخص کہہ دیا۔
اشتہار
کچھ روز قبل پاکستانی وزیر اعظم عمران کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کچھ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد افغانستان میں ایک عبوری حکومت قائم ہونی چاہیے۔ عمران خان کے اس بیان پر افغان قیادت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ کابل حکومت نے عمران خان پر افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا۔ یہاں تک کے اس معاملے پر پاکستان اور افغانستان کے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی ایک ٹویٹ میں کہہ دیا کہ افغانستان کا مستقبل افغان عوام ہی طے کریں گے۔ اس معاملے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان نے پاکستان میں تعینات اپنے سفیر کو واپس کابل بلا لیا۔
پاکستان نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا اور کہا کہ عمران خان کے بیان کو درست انداز میں رپورٹ نہیں کیاگیا۔ اس معاملے پر افغانستان میں تعینات امریکی سفیر جون باس نے اس معاملے پر ٹویٹ میں لکھا،’’ کرکٹ سفارت کاری کے کچھ معاملات میں تو موثر ثابت ہوتی ہے لیکن کچھ میں نہیں۔ عمران خان کے لیے ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے امن اور اس کے اندرونی معاملات کے ساتھ بال ٹیمپر نہ کریں۔‘‘
کئی پاکستانیوں نے عمران خان پر اس تنقید پر شدید غصے کا اظہار کیا۔ اس میں پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق بھی شامل تھیں۔ شیریں مزاری نے امریکی سفیر کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے ٹوئٹر پر ہی لکھا، ’’اے چھوٹے قد کے انسان، ظاہر ہے کہ آپ کا بال ٹیمپرنگ کا علم بھی اتنا ہی محدود ہے جتنا آپ کا افغانستان اور خطے کی صورت حال کا فہم۔ آپ کے معاملے میں تو جہالت کو نعمت بھی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ٹرمپ کی طرح کی دھوکا دہی کی ایک اور علامت ہے، وہ بھی خلیل زاد کے انداز میں۔‘‘
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
اس ٹویٹ کے بعد شیریں مزاری پر تنقید کرتے ہوئے کئی سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ انہوں نے سفارتی آداب کا احترام نہیں کیا۔ اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے ٹویٹ میں لکھا،’’ہا ہا ہا، نفرت کرنے والے نفرت ہی کریں گے، لیکن سنجیدگی سے بتائیے کہ کون سے سفارتی آداب۔ آج تمام دن سفارتی آداب کی خلاف ورزی خود امریکی سفیروں نے کی، زلمے خلیل زاد سے لے کر اس کم فہم شخص تک۔‘‘
گزشتہ کافی عرصے سےافغان طالبان مذاکراتی عمل میں افغان حکومت کو شامل نہیں کرنا چاہتے۔ ان کی رائے مین افغان صدر امریکی کٹھ پتلی ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ وہ افغان امن مذاکرات میں کابل حکومت کو شامل کرنے کے لیے افغان طالبان سے بات کر رہے ہیں لیکن کابل حکومت سمجھتی ہے کہ واشنگنٹن انہیں اس سارے معاملے پر دیوار سے لگا رہا ہے۔
’تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، امریکا پاکستانی تحفظات سمجھے‘