1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سفارت کاروں کی بے دخلیاں، پوٹن کے لیے ایک بحران، تبصرہ

28 مارچ 2018

روسی صحافی کونسٹانٹین ایگرٹ کہتے ہیں کہ کریملن مغربی ممالک سے اپنی  لڑائی جاری رکھے گا اور سفارت کاروں کی بے دخلی روس کو اس کے ارادوں سے باز نہیں رکھ سکے گی۔ ایگرٹ کے خیال میں پسپائی ماسکو کے لیے شکست ہو گی۔

تصویر: Reuters/G. Garanich

’’تم جھوٹے ہو‘‘، یہ وہ پیغام ہے، جو یورپی یونین، آسٹریلیا، امریکا اور کینیڈا نے روسی سفارت کاروں کو بے دخل کرتے ہوئے کریملن کو دیا ہے۔ روسی صحافی کونسٹانٹین ایگرٹ اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ اب بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں درج کر دیا جائے گا۔ ان کے بقول صدام حسین اور شمالی کوریا کے ’کِم‘ شاہی خاندان کو بھی عوامی سطح پر اس طرح کی ہزیمت نہیں اٹھانا پڑی۔ اسے برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کی سیاسی اور سفارتی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ اس پوری کہانی کے دو پہلو ایسے ہیں، جنہوں نے انہیں اپنی جانب مائل کیا۔ ایک ہے کہ چھوٹی سی ریاست آئس لینڈ نے یورپی یونین کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی ماسکو کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ اس ملک کے امریکا، کینیڈا یا آسٹریلیا کی طرح برطانیہ کے ساتھ خصوصی تعلقات نہیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ کریملن کے بہترین دوست ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے بھی ایک روسی سفارت کار کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ خوش دلی سے نہ کیا ہو تاہم اس موقع پر شاید انہوں نے اپنی اصل ترجیحات کو فوقیت دی ہے۔

کونسٹانٹین ایگرٹ لکھتے ہیں کہ یہ معاملہ ابھی یہیں تک محدود نہیں رہے گا۔ یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کہہ چکے ہیں کہ یورپی یونین کی رکن ریاستیں مزید اقدامات کر سکتی ہیں۔ یہاں پر شاید انہوں نے سلوواکیہ اور پرتگال کو مخاطب کیا ہے، جنہوں نے ابھی تک روس سفارت کاروں کو نکل جانے کے احکامات نہیں دیے ہیں۔

کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد کی تنظیم کے ماہرین اس زہر کاجائزہ لے رہے ہیں، جسے سیرگئی سکریپل اور ان کی بیٹی ژولیا پر حملے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اگراس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ کیمیائی مادہ روس میں تیار کیا جاتا ہے تو مزید ممالک روس کے خلاف اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ ساتھ ہی دوسری جانب امریکی اتحادی جاپان بھی نتائج کے انتظار میں ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/empics/PA Wire/A. Matthews

ڈی ڈبلیو کے لیے لکھے جانے والے اس تبصرے میں ایگرٹ مزید کہتے ہیں کہ کسی بھی عام جمہوری ملک میں اتنے بڑے سفارتی تنازعے کے بعد حکمران طبقوں کی جانب سے استعفے سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وزارت خارجہ اور خفیہ ادارے حرکت میں آجاتے ہیں اور پارلیمانی سطح پر تفتیشی کمیٹیاں بنا دی جاتی ہیں۔ لیکن روس میں جمہوریت نہیں ہے۔ روس نے امریکا سے ساٹھ سفارت کاروں کی بے دخلی پر مضحکہ خیز انداز میں ٹویٹر پر اپنے فالوآرز سے کہا کہ وہ آن لائن فیصلہ کریں کہ روس میں کون سے تین امریکی قونصل خانوں کو بند کیا جائے۔

 وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کریملن ان بے دخلیوں کا جواب ضرور دے گا۔ کونسٹانٹین ایگرٹ کے مطابق ان کے خیال میں ماسکو نے رد عمل کی تیاری شروع کر دی ہے اور اس کے لیے روس کے پاس ہیکرز اور پروپگینڈا کرنے والوں کی کمی نہیں ہے اور اس کے علاوہ بھی اگر ضرورت پڑی تو روسی مسلح افواج بھی موجود ہیں۔

تبصرہ: کونسٹانٹین ایگرٹ

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں