انسانی حقوق کے تحفظ کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنشنل نے ایسے واقعات رپورٹ کیے ہیں، جن سے انکشاف ہوتا ہے کہ سقوط کابل سے قبل اور بعد میں طالبان جنگجو مبینہ طور پر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: Bulent Kilic/AFP/Getty Images
اشتہار
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں عالمی حمایت یافتہ حکومت کے گرنے کے عمل کے دوران رونما ہونے والے جنگی جرائم اور شہریوں پر ڈھائے گئے مظالم کے ذمہ داران میں مبینہ طور پر طالبان جنگجو، امریکی فوج اور افغان سکیورٹی فورسز تینوں فریق ہی ملوث رہے۔
انسانی حقوق کی معتبر عالمی تنظیم ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں برس اگست میں سقوط کابل سے قبل یہ تینوں فریقین ایسے حملوں کی ذمہ دار ہیں، جن کے نتیجے میں افغان شہری بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے۔
بدھ کو شائع کی گئی اس رپورٹ میں طالبان جنگجوؤں پر الزام عائد کیا گیا کہ افغان حکومت کا تختہ الٹنے کے عمل کے دوران وہ جنگی جرائم کے مرتکب بھی ہوئے۔ رپورٹ میں ایسے واقعات بیان کیے گئے ہیں، جن کے مطابق طالبان مبینہ طور پر پرتشدد واقعات اور ماورائے عدالت ہلاکتوں میں بھی ملوث رہے۔
اس رپورٹ میں ایسی شہری ہلاکتوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے، جو افغان سکیورٹی فورسز اور امریکی فوج کی طرف سے زمینی یا فضائی کارروائیوں کی وجہ سے ہوئیں۔
ایمسنٹی کی سیکرٹری جنرل اگنس کالامار کی طرف سے جاری کیے ایک بیان میں کہا گیا کہ کابل حکومت کے گرنے سے کچھ ماہ کے قبل بالخصوص کابل میں بارہا جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا اور طالبان جنگجوؤں نے بے دریغ خون بہایا جبکہ افغان اور امریکی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں بھی شہری مارے گئے۔
طالبان کی کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں
سقوط کابل سے قبل اور بعد کے واقعات کا احاطہ کرنے والی اس رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ طالبان نے کابل کی عمل داری سنبھالنے سے قبل اگست اور جولائی میں اپنی پرتشدد کارروائیوں میں تیزی پیدا کر دی تھی۔
بتایا گیا ہے کہ اس دوران طالبان جنگجوؤں نے نسلی اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کو بھی چن چن کر تشدد کا نشانہ بنایا جو سابق افغان فوجی تھے یا جن پر یہ شک تھا کہ وہ افغان حکومت سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ الزام ہے کہ اس دوران اس انتہا پسند گروہ نے متعدد افراد کو ہلاک بھی کر دیا۔
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
10 تصاویر1 | 10
اس رپورٹ میں چھ ستمبر کے اس واقعے کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جب طالبان جنگجوؤں نے پنچشیر صوبے کے دارالحکومت بازارک پر حملہ کیا تھا۔ پنجشیر وادی میں پناہ لیے ہوئے طالبان مخالف ایک مقامی گروہ کے ساتھ ایک مختصر لڑائی کے بعد طالبان نے لگ بھگ بیس افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔
مزید بتایا گیا ہے کہ ان قیدیوں کو دو دن حراست میں رکھا گیا اور انہیں متعدد مرتبہ کبوتر خانوں میں بھی بند کیا گیا۔ انہیں کھانے کو کچھ نہ دیا گیا، ان پر تشدد کیا گیا حتیٰ کہ انہیں پینے کا پانی اور طبی امداد بھی نہیں دی گئیں۔ ان پر نفیساتی تشدد کرتے ہوئے انہیں ہلاک کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پنجشیر میں کم از کم چھ شہریوں کو حراست میں لیا گیا اور ان کے سر اور سینے پر گولیاں مار کر انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ رپورٹ میں ان واقعات کو جنگی جرائم کے زمرے میں بیان کیا گیا ہے۔
اشتہار
امریکی اور افغان فضائیہ حملوں میں شہری ہلاکتیں
اس رپورٹ میں رواں برس ہونے والے کم ازکم چار فضائی حملوں میں اٹھائیس شہریوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں پندرہ مردوں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی شامل تھے جبکہ چھ افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
انکشاف کیا گیا ہے کہ بہت زیادہ امکان ہے کہ ان میں سے تین حملے امریکی فضائیہ نے کیے۔ بتایا گیا ہے کہ ان کارروائیوں میں زیادہ تر شہری ہی مارے گئے کیونکہ گنجان آباد شہری علاقوں پر بمباری کی گئی تھی۔
اس رپورٹ میں ایک نوسالہ بچی کا بیان بھی شامل کیا گیا ہے، جس میں اس نے بتایا کہ جب پہلا بم گرا تو اس کی نیند ٹوٹ گئی اور اس کے والد نے کہا کہ کہیں چھپ جاؤ تاہم اسی اثنا ایک اور بم گرا ، جس کے نتیجے میں اس کا بھائی، انکل، آنٹی اور بہن ماری گئی۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق سن دو ہزار اکیس کی پہلی ششماہی کے دوران ایک ہزار چھ سو انسٹھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زائد رہی۔
ان اعدادوشمار کے مطابق افغانستان میں سن دو ہزار بیس کے مقابلے میں رواں برس ہلاکتوں اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد میں سینتالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یو این ہیومن رائٹس کونسل کی نائب کمشنر نادا الناشف نے منگل کے دن ہی ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی باوثوق اطلاعات ملی ہیں کہ افغانستان میں اگست میں طالبان کی عمل داری کے بعد سے اب تک کم از کم سو افراد کو ماورائے عدالت ہلاک کیا گیا۔