سلامتی کونسل ایرانی سائنسداں کے قتل معاملے پرشاید توجہ نہ دے
2 دسمبر 2020
ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپنے چوٹی کے جوہری سائنس دان کے قتل کی مذمت اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم سفارت کارو ں کا خیال ہے کہ اس اپیل پر شاید توجہ نہ دی جائے۔
اشتہار
اگر پندرہ رکنی سلامتی کونسل کا کوئی رکن ایرانی جوہری سائنس داں محسن فخری زادہ کے قتل کے معاملے پر غور و خوض کے لیے درخواست دیتا ہے تو سلامتی کونسل بند دورازے میں اس پر اجلاس بلا کر اور اراکین کے درمیان اتفاق رائے ہونے پر کوئی بیان جاری کر سکتی ہے۔
سلامتی کونسل میں جنوبی افریقہ کے سفیرجیری ماٹجیلا نے منگل کے روز بتایا کہ ایرانی سائنس دان کے قتل یا ایران پر تبادلہ خیال کے لیے اب تک کسی رکن ملک نے کوئی درخواست نہیں دی ہے۔ سفارت کاروں کے مطابق کوئی بیان جاری کرنے کے حوالے سے بھی کسی طرح کی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی برقرار رکھنے کے لیے ذمہ دار ہے اور اسے کسی کے خلاف فوجی کارروائی یا پابندیاں عائد کرنے کا حکم دینے کا بھی اختیار ہے لیکن اس طرح کے اقدامات کے لیے کم از کم نو اراکین کی حمایت اور پانچ مستقل اراکین امریکا، فرانس، برطانیہ، روس اور چین کی جانب سے مخالفت میں ویٹو کا استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
گوکہ ایرانی جوہری پروگرام کے 'فادر‘ سمجھے جانے والے فخری زادہ کے قتل کی ذمہ داری ابھی تک کسی نہیں قبول کی ہے تاہم ایران نے اس کے لیے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟
01:17
امریکا روایتی طور پر سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ واشنگٹن نے بھی ایرانی سائنس داں کے قتل پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔
فخری زادہ کا قتل انسانی حقوق کی خلاف ورزی
اقوام متحدہ میں ماورائے عدالت قتل کے الزامات کے تفتیش کار ایجینس کالامارڈ نے کہا کہ فخری زادہ کے قتل کے حوالے سے بہت سارے سوالات ہیں تاہم یہ ایک مسلح تصادم کے باہر ماورائے عدالت نشانہ بنا کر قتل کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
کالامارڈ نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ اس طرح کا قتل بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔
ایران نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کو بھی اس سلسلے میں ایک خط ارسال کیا ہے۔ گوٹیرش نے اس کے جواب میں 'کسی بھی ماورائے عدالت قتل‘ کی مذمت کرتے ہوئے ایران سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔
سلامتی کونسل کی ہر چھ ماہ پر ہونے والی معمول کی میٹنگ 22 دسمبر کو طے ہے، جس میں عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان 2015ء میں ہونے والے معاہدے پر غور کیا جائے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ 2018 ء میں اس سے یکطرفہ طورپر الگ ہوگئی تھی۔
22دسمبر کو سلامتی کونسل کی مجوزہ میٹنگ میں کونسل کا کوئی رکن یا ایران اگر چاہے تو فخری زادہ کی ہلاکت کا معاملہ اٹھاسکتا ہے۔
اشتہار
جوہری تنصیبات تک رسائی نہ دینے کا بل منظور
دریں اثنا ایران کی پارلیمنٹ نے ایک بل کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو تہران کی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
خبر رساں ادارے 'اے پی‘ کے مطابق مذکورہ بل کے تحت اگر جوہری معاہدے 2015 ء کے دستخط کنندہ ممالک تیل اور بینکنگ پر عائد پابندیوں میں نرمی نہیں کرتے توایرانی حکومت یورینیم کی افزودگی کو بڑھانے پر ساری توانائی خرچ کرے گی۔
بل کی منظوری کے دوران پارلیمان کے اجلاس کو ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا گیا، جس میں اراکین 'امریکا مردہ باد، اسرائیل مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے نظر آئے۔
ج ا/ (روئٹرز، اے پی)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔