سلامتی کونسل میں پاکستان اور امریکا کی افغانستان پر لفظی جنگ
عابد حسین
20 جنوری 2018
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورت حال پر ایک خصوصی اجلاس جمعہ انیس جنوری کو طلب کیا گیا۔ اس اجلاس میں افغانستان اور خاص طور پر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ کابل حکومت کے تعلقات اور رابطے زیر بحث آئے۔
اشتہار
سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغانستان کی داخلی صورت حال اور کابل حکومت کے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات پر توجہ مرکوز کرنے کے علاوہ امن اور سکیورٹی کی صورت حال پر بھی بحث کی گئی۔ اس اجلاس میں امریکی اور پاکستانی مندوبین نے بحث کے دوران افغان صورت حال پر اپنے اپنے دلائل کا تبادلہ کیا، جس دوران لفظوں کی جنگ بھی دیکھنے میں آئی۔
امریکی نائب وزیر خارجہ جان سلیوان نے کہا کہ اب امریکا پاکستان کے ساتھ مزید نہیں چل سکتا کیونکہ اُس نے دہشت گرد تنظیموں کے ارکان کو پناہ دے رکھی ہے۔ سلیوان نے مزید کہا کہ پاکستان کو اس حمایت کو بند کر کے افغان تنازعے کے حل کی کوششوں میں بھرپور طریقے سے شریک ہونا چاہیے۔
اس کے جوا ب میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے واضح کیا کہ افغانستان اور اُس کے اتحادیوں، خاص طور پر امریکا کو پہلے افغانستان کے اندرونی چیلنجز پر توجہ دینا چاہیے نہ کہ وہ اس تنازعے کا الزام کسی اور کے سر دھریں۔ ملیحہ لودھی نے یہ بھی کہا کہ ’وہ جو تصور کرتے ہیں کہ ایسی پناہ گاہیں افغانستان سے باہر قائم ہیں، ان کا حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے‘۔
سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں امریکی اہلکار جان سلیوان نے زور دے کر کہا کہ اب اس صورت حال کا تبدیل ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امن کے قیام کی کوششوں میں افغان شہریوں کی اپنی سوچ اور کوششوں ہی کا حتمی ہونا ضروری ہے اور اس امن عمل میں افغان سکیورٹی فورسز کے لیے بین الاقوامی برادری کی حمایت بھی ضروری ہے۔
امریکی نائب وزیر خارجہ نے اجلاس میں مزید واضح کیا کہ افغان سکیورٹی فورسز کا طالبان کے لیے واضح پیغام یہ ہے کہ اس تنازعے کا حل صرف اور صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے اور وہ کسی صورت بھی مسلح کارروائیوں سے جنگ نہیں جیت سکتے۔ سلیوان نے بغیر نام لیے اُن ملکوں پر تنقید کی جو طالبان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سلیوان کے اس موقف کے جواب میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ سترہ برس سے جاری تنازعے نے واضح کر دیا ہے کہ جنگی حالات کے ساتھ نہ تو افغان حکومت کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی طالبان فتح مند ہو سکتے ہیں۔ لودھی کے مطابق سفارتی مکالمت کے ساتھ ساتھ جنگی کارروائیوں کی حکمت عملی صرف اور صرف تشدد میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستانی مندوب کے مطابق صرف لفاظی سے معاملات حل نہیں ہوتے اور اس کے لیے مؤثر اور عملی مکالمت کی بھی ضرورت ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی اہلکار جان سلیوان، پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی اور افغان نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے اپنی اپنی تقاریر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی امداد معطل کرنے کا کوئی حوالہ نہ دیا۔
طورخم کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ کی بندش
پاکستان اور افغانستان کے مابین طورخم کی سرحدی گزرگاہ پر پاکستانی حکام کی طرف سے خار دار باڑ لگانے کے تنازعے کے باعث یہ بارڈر کراسنگ گزشتہ کئی دنوں سے بند ہے، جس کی وجہ سے سرحد پار آمد و رفت اور مال برداری بھی معطل ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
سرحد کی طرف رواں
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سامان کی مال برداری کا ایک بہت بڑا حصہ طورخم کی سرحد کے ذریعے ہی عمل میں آتا ہے۔ اس تصویر میں بہت سے ٹرک اور ٹرالر طورخم کی طرف جاتے دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ایسی ہزاروں مال بردار گاڑیاں پہلے ہی کئی دنوں سے اس شاہراہ پر بارڈر دوبارہ کھلنے کے انتظار میں ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
باب خیبر
طورخم بارڈر پر پاکستانی حکام کی طرف سے سرحد کے ساتھ پاکستانی علاقے میں خار دار باڑ لگانے کے منصوبے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے کے حل کے لیے اسی ہفتے خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ اور خیبر رائفلز کے کمانڈنٹ کی افغان پولیس کے کمانڈر سے بات چیت بھی ہوئی لیکن اطرف کے مابین کوئی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
تصویر: DW/D.Baber
بندش کا مطلب تجارتی جمود
پاکستان افغان سرحد کی بندش سے متعلق تنازعے کا سب سے زیادہ نقصان دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو بھی پہنچ رہا ہے اور ان ڈارئیوروں کو بھی جو پچھلے کئی دنوں سے انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
تصویر: DW/D.Baber
بارڈر کھلنے کا انتظار
طورخم بارڈر کی بندش کے باعث اس سرحدی گزر گاہ کو جانے والی شاہراہ پر دونوں طرف ہزاروں کی تعداد میں کئی طرح کے تجارتی سامان سے لدی گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں، جن کے ڈرائیور اس انتظار میں ہیں کہ بارڈر کھلے تو وہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔
تصویر: DW/D.Baber
کراچی سے کابل تک پریشانی
بارڈر کی بندش کے نتیجے میں ایک طرف اگر شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں کی کئی کئی کلومیٹر طویل قطاریں نظر آتی ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں کراچی سے لے کر افغانستان میں کابل تک ہزاروں تاجر بھی اس لیے پریشان ہیں کہ یہ صورت حال اب تک ان کے لیے کروڑوں کے نقصان کا سبب بن چکی ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
کئی دنوں سے بھوکے ڈرائیور
سرحد کی بندش کے باعث مال بردار گاڑیوں کے ہزاروں ڈرائیوروں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ وہ اپنی گاڑیوں کو چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتے اور جہاں وہ ہیں، وہاں انہیں معمول کی خوراک دستیاب نہیں۔ ایسے میں انہیں سڑک کنارے بیچی جانے والی اشیاء اور کچھ پھل وغیرہ خرید کر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
گرمی میں پیاس
مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے پاس ان کی گاڑیوں میں عام طور پر اشیائے خوراک یا مشروبات کا کوئی ذخیرہ نہیں ہوتا۔ ایسے میں شدید گرمی میں اگر ممکن ہو سکے تو وہ اپنی پیاس چائے پی کر بجھا لیتے ہیں۔ اس تصویر میں اپنے ٹرک کے نیچے بیٹھے دو افراد اپنے لیے چائے بنا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
گرمی میں ٹرک کا سایہ بھی غنیمت
پاکستان سے روزانہ بے شمار ٹرک اور ٹرالر تجارتی اور تعمیراتی سامان کے ساتھ ساتھ تازہ پھل اور سبزیاں لے کر افغانستان جاتے ہیں۔ کئی ڈرائیوروں کو خدشہ ہے کہ طورخم کی سرحد کی بندش اب دنوں سے نکل کر ہفتوں کی بات بن سکتی ہے۔ اس تصویر میں محض انتظار کرنے پر مجبور ایک ٹرک ڈرائیور اور اس کا ساتھی دوپہر کی گرمی میں سستانے کے لیے اپنے ٹرک کے نیچے زمین پر سو رہے ہیں۔