’سلامتی کونسل میں یورپی یونین کی ایک سیٹ‘ کیا ممکن ہے؟
30 نومبر 2018
فرانس نے جرمنی کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یورپی یونین کی ایک مشترکہ نشست ہونا چاہیے۔ فرانس اس اہم عالمی ادارے میں مستقل رکن ہے اور وہ اس نشست کو کھونا نہیں چاہتا۔
اشتہار
فرانسیسی وزارت خارجہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جرمنی کی اس تجویز پر عمل نہیں کیا جا سکتا کہ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل میں فرانس کی نشست کو ختم کرتے ہوئے یورپی یونین کی ایک مشترکہ نشست بنا دینا چاہیے۔ جرمن وزیر مالیات اور نائب چانسلر اولاف شُلس نے یہ تجویز دی تھی۔
اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے فرانسیسی وزارت داخلہ کی طرف سے کہا گیا، ’’جب ہم نے اپنے قومی مؤقف کا دفاع کرنا ہوتا ہے تو ہم یورپ کے متقفہ مؤقف کو ملحوظ رکھتے ہیں۔‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فرانسیسی حکومت کی نمائندگی میں نہ صرف جرمنی بلکہ تمام یورپی یونین رکن ریاستوں کے مؤقف کو شامل کیا جاتا ہے۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ البتہ پیرس حکومت سلامتی کونسل میں اصلاحات کے لیے تیار ہے اور اس اہم عالمی ادارے میں جرمنی، جاپان، بھارت، برازیل اور دو افریقی ممالک کو مستقل ممبران بنائے جانے کی حمایت کی جائے گی۔
فی الحال سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک کی تعداد پانچ ہے۔ ان ممالک میں فرانس، برطانیہ، چین، روس اور امریکا شامل ہیں۔ یورپی یونین سلامتی کونسل میں مبصر ہے اور اسے ووٹنگ کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔
جرمنی کی وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے رکن اولاف شُلس نے تجویز دی تھی کہ فرانس کو سلامتی کونسل میں اپنی مستقل نشست کو یورپی یونین کی سیٹ میں بدل لینا چاہیے۔
انہوں نے برلن میں کہا، ’’مجھے یہ بات واضح ہے کہ اس سلسلے میں فرانس کو قائل کرنے کی خاطر کام کرنا پڑے گا۔‘‘ ان کے بقول ’لیکن یہ ایک دلیرانہ اور علقمندانہ مقصد ہو گا‘۔
شُلس کی یہ تجویز دراصل جرمنی کی اس دیرینہ خواہش کا متبادل ہے، جس میں جرمنی کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اس تناظر میں ایس پی ڈی پیش پیش رہی ہے۔ کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) سے تعلق رکھنے والی چانسلر انگیلا میرکل نے بھی محتاط انداز میں اس تجویز کی حمایت کی ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں اضافے کا منصوبہ متنازعہ ہے کیونکہ پہلے ہی پانچ مستقل ارکان بہت سے معاملات پر ویٹو کا حق استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اس اہم ادارے میں فیصلہ سازی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔