سلامتی کونسل نے شام کے لیے روسی منصوبہ مسترد کردیا
9 جولائی 2020
اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے اراکین نے شام میں باغیوں کے گڑھ میں واقع سرحدی گزرگاہوں سے ہوکر انسانی امداد پہنچانے کے حوالے سے روس کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کے مسودے کو بدھ کے روز کثرت رائے سے مسترد کردیا۔
اشتہار
روس نے صرف ایک گزرگاہ کھلا رکھنے کی تجویز پیش کی تھی۔ دوسری طرف جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے روس پر شام میں انسانی بحران کو مزید ابتر بنانے کا الزام لگایا ہے۔
روس جنگ زدہ شام میں امدادی ساز وسامان پہنچانے کے لیے سرحدی گزرگاہوں کی تعداد کم کرانا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے اس نے سلامتی کونسل میں ایک قرار داد پیش کی تھی لیکن اس تجویز کی حق میں صرف چار ووٹ حاصل ہوئے۔ روس چاہتا ہے کہ ترکی اور شمال مغربی شام کے درمیان واقع جن دو سرحدی گزرگاہوں کے ذریعہ امدادی سامان جنگ زدہ علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے ان کی تعداد کم کرکے صرف ایک کردی جائے۔
روس کی طرف سے بدھ کے روز پیش کردہ قرارداد کو منظوری کے لیے 15رکنی سلامتی کونسل کے کم از کم نو اراکین کی منظوری ضروری تھی لیکن ماسکو کو صر ف چین، ویت نام اور جنوبی افریقہ کی تائید حاصل ہوسکی۔ سات دیگر ممالک بشمول جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکا نے اس کے خلاف ووٹ دیا جبکہ چار اراکین غیر حاضر رہے۔
فی الوقت اقوام متحدہ کی طرف سے شام میں امدادی سامان باغیوں کے قبضے والے شمالی حلب کے شمال مغربی میں واقع باب السلام اور ادلب صوبہ میں باب الہوا کے راستے سے پہنچا یا جاتا ہے۔ یہ دونوں سرحدی گزرگاہیں شامی حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔
سلامتی کونسل ہی کی ایک قرارداد کے تحت 2014 سے ہی جنگ زدہ شام میں رہنے والے لاکھوں شامیوں تک تمام ضروری امدادی اشیاء انہی گزرگاہوں کے ذریعہ پہنچائی جارہی ہیں۔ تاہم، دس جولائی کو یہ قرارداد اپنی مدت پوری کر لے گی۔ اسی لیے سلامتی کونسل امداد جاری رکھنے کے لیے کسی سمجھوتے تک پہنچنے کی کوشش کررہی ہے۔
جرمنی اور بیلجیئم نے منگل کے روز مشترکہ طور پر ایک قرارداد کا مسودہ سلامتی کونسل میں پیش کیا تھا اس میں ان سرحدی گزرگاہوں کو مزید ایک برس تک کھلا رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ تاہم روس کا کہنا ہے کہ امدادی اشیاء کو صرف باب الہوا گزرگاہ کے ذریعہ ہی بھیجا جائے اور وہ بھی چھ ماہ کے لیے۔ لیکن کونسل کے دیگر اراکین کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔
بدھ کے روز سلامتی کونسل نے روس کی جس قرارداد کومسترد کردیا وہ دراصل ماسکو نے جرمنی اور بیلجیئم کی طرف سے پیش کردہ مذکورہ قرارداد کے جواب میں پیش کی تھی جسے بعد میں روس اور چین نے ویٹو کردیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس سال اپریل اور مئی کے دوران، ترکی کے راستے سے جانے والی اس کی امدادی کارروائیوں سے تقریباً تیرہ لاکھ شامیوں کو فائدہ پہنچا۔
سلامتی کونسل نے اس سال جنوری میں روس اور چین کے دباؤ میں پوری امداد روکنے کے خدشے کے تحت امداد کے لئے کھلی چار میں سے دو گزرگاہوں کو بند کر دیا تھا۔ ان میں سے ایک گزرگاہ طبی سامان کی ترسیل کیلئے تھی جو عراق سے شام کے شمال مغرب میں جاتی تھی اور دوسری شام اور اردن کے درمیان تھی، جسے اب استعمال نہیں کیا جاتا۔
جرمنی کے وزیر خارجہ نے روس پر الزام لگایا ہے کہ اس کے اقدامات کی وجہ سے شام میں انسانی صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے اور وہ رکاوٹیں کھڑی کرکے ”لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔“
ج ا/ ص ز (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
جرمن فوٹوگرافر ’جنگ کی ہولناکیوں‘ کی تلاش میں
آنڈی اسپیرا ایک جرمن فوٹوگرافر ہے، جو دنیا کے تقریباً تمام بحران زدہ ممالک اور خطّوں بشمول عراق، افغانستان، شام اور نائیجیریا جا چکا ہے اور ہمیشہ ایسی تصویریں لے کر آتا ہے، جو دیکھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
تصویر: J. Idrizi
جنگوں کا فوٹوگرافر
1984ء میں جرمن شہر ہاگن میں پیدا ہونے والے آنڈی اسپیرا نے ابتدائی تعلیم کے بعد وسطی امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا کے سفر کیے۔ اسی دوران اُنہیں فوٹوگرافی کا شوق ہوا۔ وہ بار بار بحران زدہ خطّوں میں جاتے ہیں۔ وہ صرف اور صرف بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگرافی کرتے ہیں اور طویل المدتی منصوبوں پر کام کرتے ہیں۔ بے شمار مشہور اخبارات اور جریدوں میں اُن کی تصاویر شائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: J. Idrizi
طویل المدتی منصوبہ ’کشمیر‘
پاکستان اور بھارت کا سرحدی خطّہ کشمیر دنیا بھر میں سب سے زیادہ فوجی موجودگی والا خطّہ تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں 1989ء سے جاری تنازعہ اب تک تقریباً ستّر ہزار انسانوں کو نگل چکا ہے۔ اپنے طویل المدتی منصوبے ’کشمیر‘ کے لیے آنڈی اسپیرا کو 2010ء میں ’لائیکا آسکر بارناک ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تھا۔ اس تصویر کے بارے میں اسپیرا بتاتا ہے کہ ان دو چھوٹے بچوں نے جنگ کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔
تصویر: A. Spyra
بحرانی خطّوں کا روزمرہ کا معمول
مئی 2014ء میں آنڈی اسپیرا نے مزارِ شریف کی نیلی مسجد میں جمعے کی نماز کی یہ تصویر اُتاری۔ پندرہویں صدی میں بننے والی اس مسجد کے بارےمیں مشہور ہے کہ وہاں پیغمبر اسلام کے داماد دفن ہیں، اسی لیے افغانستان بھر سے زائرین یہاں آتے ہیں۔ اسپیرا کے مطابق وہ بلیک اینڈ وائٹ میں اس لیے تصویریں بناتے ہیں کیونکہ اس طرح ’تصویر کا جذباتی پہلو زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے‘۔
تصویر: Andy Spyra
محاذ کے قریب اسکول کی کلاس
جنگ کے دوران بھی لوگ اپنے روزمرہ معمولات انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جون 2014ء میں اسپیرا نے یہ تصویر مزارِ شریف کے ایک اسکول میں اُتاری۔ یہاں خاص طور پر نمایاں بات اس تصویر میں موجود افراد کے چہروں کے غیر واضح خطوط اور سامنے سے آنے والی تیز روشنی ہے:’’زیادہ تر غیر واضح تصاویر کے ذریعے مَیں جذباتی پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہوں۔‘‘
تصویر: Andy Spyra
بازار کی رنگا رنگی
طالبان کی طرف سے کسی حملے کے خوف کے باوجود افغان شہری اپنی اَشیائے ضرورت خریدنے کے لیے بازار بھی جاتے ہیں۔ وہیں آنڈی اسپیرا نے مئی 2015ء میں یہ تصویر بنائی۔ وہ اپنی تصاویر میں براہِ راست جنگ کے مناظر دکھانے کی بجائے قریبی علاقوں میں چلتی پھرتی زندگی کو موضوع بناتے ہیں۔
تصویر: Andy Spyra
شام اور عراق کی سرحد پر
کُرد ملیشیا، النصرہ فرنٹ اور شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپوں کے باعث لوگوں کو شام کے کُرد علاقے چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آنڈی اسپیرا نے یہ تصویر عراقی شامی سرحد پر فِش خابور کے مقام پر بنائی، جہاں گھر بدر ہونے والے دو لاکھ بیس ہزار انسانوں نے پناہ لی ہے۔
تصویر: A. Spyra
مہاجر کیمپ
جو شخص بھی شام سے زندہ سلامت باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ سرحد پار کسی مہاجر کیمپ میں پناہ کی امید کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق روزانہ کم یا شدید جھڑپوں کے پیشِ نظر کبھی سینکڑوں تو کبھی ہزاروں انسان پناہ کی تلاش میں اِس غیر سرکاری سرحدی گزر گاہ پر پہنچتے ہیں۔ پھر ان کا اندراج ہوتا ہے اور انہیں مختلف کیمپوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ کیمپ بھی جنگ ہی کا ایک چہرہ ہیں۔
تصویر: Andy Spyra
ایک تصویر محاذِ جنگ سے بھی
عام طور پر آنڈی اسپیرا جھڑپوں سے دور ہی رہتے ہیں اور زیادہ تر تصاویر لڑائی کے مرکز سے ہٹ کر واقع علاقوں میں اتارتے ہیں تاہم اس تصویر میں وہ شمالی شام میں راس العین کے مقام پر ہونے والی لڑائی کے بیچوں بیچ ہیں۔ یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہے: کُرد عربوں کے خلاف، ترک کُردوں کے خلاف، اسلام پسند مسیحیوں کے خلاف اور سب مل کر حکومت کے خلاف۔
تصویر: A. Spyra
عراق کی مسیحی اقلیت
جون 2011ء میں آنڈی اسپیرا نے عراق میں الحمدانیہ کے مقام پر ایک رسمِ تدفین میں شرکت کی۔ اس علاقے کی اٹھانوے فیصد آبادی مسیحی ہے اور شامی کیتھولک چرچ اور شامی آرتھوڈوکس چرچ سے تعلق رکھتی ہے۔ اگست 2014ء سے لے کر اکتوبر 2016ء تک یہ شہر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے میں تھا۔ اس باعث یہاں کے متعدد عیسائی باشندوں کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔
تصویر: A. Spyra
نائیجیریا اور بوکو حرام
آنڈی اسپیرا کئی بار نائیجیریا بھی جا چکے ہیں۔ وہاں اُنہوں نے تقریباً 80 ایسی خواتین اور لڑکیوں کی تصاویر اُتاری ہیں، جو بوکوحرام کے قبضے میں رہیں۔ یہ باقاعدہ ان خواتین کو ایک جگہ بٹھا کر اُتاری گئی تصاویر ہیں، جیسی کہ اسپیرا عام طور پر نہیں اُتارتے۔ وہ انہیں مظلوم بنا کر پیش نہیں کرتے:’’ایک فوٹوگرافر ہونے کے باوجود میری بھی حدود ہیں۔ وہاں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے، جو مَیں کیمرے میں قید نہیں کر سکتا۔‘‘