سلامتی کونسل کے اعلامیے میں شام کی مذمت
4 اگست 2011بہرحال شام میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے سلامتی کونسل کی جانب سے اٹھایا گیا یہ اب تک کا سب سے اہم اور بڑا قدم ہے۔ اس اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ مظاہرین کے خلاف جبر و تشدد کے ذمہ دار عناصر سے اُن کے کیے کا حساب لیا جانا چاہیے۔ سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے چودہ رکن ممالک نے اس اعلامیے کی تائید و حمایت کی جبکہ ایک رکن ملک لبنان نے اس سے لاتعلقی اختیار کی۔ لبنان شام کا ہمسایہ ملک ہے اور وہاں دمشق حکومت کو بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے۔
کئی ہفتوں کے پیچیدہ بحث مباحثے کے بعد منظور ہونے والے اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شامی حکام اپنے شہریوں کے خلاف طاقت استعمال کر رہے ہیں اور اُن کے انسانی حقوق پامال کر رہے ہیں۔ اس اعلامیے کا متن اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر ہردیپ سنگھ پوری نے پڑھ کر سنایا، جن کا ملک رواں مہینے سلامتی کونسل کی صدارت کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔
مغربی دُنیا کسی اعلامیے کی بجائے ایک باقاعدہ قرارداد کے حق میں تھی تاہم روس اور چین جیسی ویٹو طاقتوں کی مزاحمت کے باعث یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ اعلامیے میں ’تمام فریقوں‘ سے کہا گیا ہے کہ وہ تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے اجتناب کریں اور ’ریاستی اداروں‘ پر حملوں سمیت ہر قسم کے جارحانہ عمل سے باز رہیں۔ اس طرح کی عبارت روس اور اُن دیگر ممالک کو مطمئن کرنے کے لیے اعلامیے میں شامل کی گئی ہے، جنہوں نے صرف دمشق حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے ایک ایسے متوازن اعلامیے پر زور دیا تھا، جس میں شام میں سرگرم دیگر مسلح گروپوں کو بھی تشدد سے باز رہنے کے لیے کہا گیا ہو۔ واضح رہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے مطابق اُسے اپوزیشن کے مسلح انتہا پسندوں کا سامنا ہے۔
عالمی سلامتی کونسل کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی شام میں اپوزیشن کے خلاف طاقت کا استعمال بند کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اُنہوں نے نیویارک میں کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں مظاہرین کی ہلاکت ایک بے رحمانہ اور ہلا دینے والا اقدام ہے۔ بان کی مون نے دمشق حکومت پر ایسی سیاسی اصلاحات متعارف کروانے کے لیے زور دیا، جو شامی عوام کی بنیادی آزادیوں کی ضمانت دیتی ہوں۔
اُدھر وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے صدر بشار الاسد کو ملک میں ’عدم استحکام کی وجہ‘ قرار دیا ہے۔ اِس طرح امریکہ نے شامی صدر کے خلاف اپنا موقف مزید سخت کر دیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کے مطابق سلامتی کونسل کے اعلامیے نے واضح کر دیا ہے کہ ’صدر اسد زیادہ سے زیادہ تنہا‘ ہو گئے ہیں۔ فرانسیسی وزیر خارجہ الاں ژوپے نے اس اعلامیے کو ’بین الاقوامی برادری کے طرزِ عمل میں ایک موڑ‘ سے تعبیر کیا ہے۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی
ادارت: شامل شمس