سلمان تاثیر کے قاتل کے لیے موت کی سزا کا حکم
1 اکتوبر 2011راولپنڈی میں قائم انسدادا دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج پرویز علی شاہ نے ممتاز حسین قادری کو موت کی سزا کے علاوہ دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے۔ سلمان تاثر کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ، راولپنڈی کی سخت سکیورٹی والی اڈیالہ جیل کے اندر قائم عدالت میں سنایا گیا۔ فیصلہ سنائے جانے کے وقت مجرم کمرہٴ عدالت میں موجود تھا۔ سرکاری وکیل نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ملزم نے اعتراف جرم کر لیا ہے لہذا وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج پرویز علی شاہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ کسی کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے اور کون نہیں۔ جج کے مطابق توہین رسالت کا تعین کرنے کے لیے عدالتیں موجود ہیں۔ عدالتی حکم کے تحت مجرم ممتاز قادری سات روز کے اندر اندر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق رکھتا ہے۔
وکیل دفاع شجاع الرحمن نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان کے مؤکل کو عدالت کی جانب سے موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ شجاع الرحمٰن کے مطابق قادری نے اعتراف جرم کر لیا تھا لیکن وہ عدالت کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ سلمان تاثر کے قتل کی وجوہ ان کی مذہب کی توہین تھی لیکن عدالت اس دلیل سے متفق نہیں ہوئی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سزا کے خلاف عدالت عالیہ یا ہائیکورٹ میں یقینی طور پر اپیل کی جائے گی۔
جس وقت عدالت میں قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنایا جانا تھا، اس وقت لوگوں کی ایک بڑی تعداد اڈیالہ جیل کے باہر جمع تھی اور قادری کے حق میں نعرے بازی بھی کر رہی تھی۔
ممتار حسین قادری کو موت کی سزا کے حکم کے فوری بعد پھانسی کے منتظر مجرموں کے ڈیتھ سیل یا کال کوٹھری میں منتقل کردیا گیا۔ قادری کی جانب سے ہائیکورٹ میں اپیل کے باوجود موت کی سزا برقرار رہنے کی صورت میں وہ سپریم کورٹ میں اپیل اور صدر کے پاس رحم کی درخواست بھی جمع کروا سکتا ہے۔
سلمان تاثیر کو اسی سال چار جنوری کو اسلام آباد میں ممتاز حسین قادری نے کوہسار مارکیٹ کے قریب اس وقت قتل کردیا تھا جب وہ اپنی موٹر کارمیں سوار ہونے والے تھے۔ مجرم پولیس کا ملازم تھا اور وہ مقتول گورنر کی محافظ ٹیم کا رکن تھا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: افسر اعوان