سلمان رشدی پر حملہ: ایران کی کسی بھی طرح ملوث ہونے کی تردید
15 اگست 2022
ایرانی حکومت نے ان مبینہ دعووں کی تردید کی ہے کہ برطانوی مصنف سلمان رشدی پر حالیہ حملے میں تہران کسی بھی طرح ملوث تھا۔ بھارتی نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی پر جمعے کے روز امریکہ میں حملہ کیا گیا تھا۔ وہ اب روبصحت ہیں۔
اشتہار
بھارتی نژاد برطانوی ادیب سلمان رشدی، جن کی عمر اس وقت 75 برس ہے، The Satanic Verses نامی اس ناول کے مصنف ہیں جس کو دنیا کے بہت سے مسلمان مذہبی طور پر اپنے جذبات کے مجروح ہونے کا سبب قرار دیتے ہیں۔
اسی ناول کی وجہ سے ایوارڈ یافتہ ادیب رشدی کے خلاف ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نے ماضی میں فتویٰ جاری کرتے ہوئے ان کے قتل کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ اس کے بعد ایران ہی کی ایک نیم سرکاری تنظیم نے سلمان رشدی کے سر کی تین ملین ڈالر قیمت بھی مقرر کر دی تھی۔
رشدی اب روبصحت
رشدی گزشتہ ہفتے جمعے کے روز امریکی ریاست نیو یارک کے ایک چھوٹے سے شہر میں ایک تقریب میں شامل تھے اور خطاب کے لیے اسٹیج پر پہنچے ہی تھے کہ چاقو سے مسلح ایک شخص نے ان پر حملہ کر دیا تھا۔
اس حملے میں رشدی کو گردن پر زخم آئے تھے اور انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ ان کا علاج ابھی جاری ہے، مگر اب وہ وینٹیلیٹر پر نہیں ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق رو بصحت ہیں۔
سلمان رشدی پر حملے کے پس منظر میں سوشل میڈیا پر کئی ممالک میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھیں کہ رشدی پر حملے میں ایران ملوث تھا۔ ان دعووں کی تردید کرتے ہوئے تہران میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے پیر پندرہ اگست کے روز کہا کہ ایران رشدی پر کیے گئے حملے میں کسی بھی طرح ملوث نہیں۔ ایران کا یہ موقف دراصل اس برطانوی مصنف پر کیے گئے حملے کے حوالے سے تہران کا اولین باقاعدہ ردعمل بھی ہے۔
اشتہار
’ایران پر الزام تراشی کا حق کسی کو نہیں‘
تہران میں ملکی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا، ''ہم سلمان رشدی پر امریکہ میں کیے گئے حملے کے حوالے سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی ذمے داری کسی اور پر نہیں بلکہ صرف خود سلمان رشدی اور ان کے حامیوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔‘‘ کنعانی کے مطابق، ''کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس معاملے میں ایران پر کسی بھی قسم کا کوئی الزام عائد کرے۔‘‘
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سلمان رشدی پر مسلح حملے کے سلسلے میں مزید کہا کہ ایران کے پاس بھی اس بارے میں بس اتنی ہی معلومات ہیں، جتنی کہ اس واقعے کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کے سامنے آئی ہیں۔
فرینکفرٹ کتاب میلے کے ستر سال
جرمن شہر فرینکفرٹ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سن 1949 میں پہلی بار ایک کتاب میلے کا انعقاد ہوا تھا، جو اب یورپ کے سب سے بڑا کتاب میلا بن چکا ہے۔ دیکھیے فرینکفرٹ کتاب میلے کی ستر سالہ تاریخ کے بارے میں تصویری جھلکیاں۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
فرینکفرٹ میں ایک نیا آغاز
فولڈنگ کرسیاں اور عارضی طور پر سجائی گئی کتابوں کی الماریاں۔ ستمبر 1949ء میں فرینکفرٹ میں ہونے والے پہلے کتاب میلے نے حاضرین کو جرمنی کے ادبی ذخیرے کی ایک جھلک پیش کی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی میں علیحدگی کی وجہ سے فرینکفرٹ (مغربی جرمنی) میں اور لائپزگ (مشرقی جرمنی) میں دو مخلتف کتاب میلوں کا آغاز ہوا۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
ادب سے محبت
وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کے فوراﹰ بعد اسٹاک ایکسچینج کی تنظیموں اور پر عزم کتاب فروشوں نے فرینکفرٹ کتاب میلے کا آغاز کیا۔ سن 1949 میں 18 سے 23 ستمبر تک ناشرین، مصنفین اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں نے نہ صرف 200 سے زائد نمائش کنندگان کی اس خصوصی پیشکش کو دیکھا بلکہ آپس میں رابطے بھی قائم کیے۔ فرینکفرٹ کے پاؤل کیتھیڈرل میں 8500 کتابوں کی نمائش کی گئی، جس میں 14 ہزار افراد نے شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/frm
کیتھیڈرل سے نمائش گاہ میں منتقلی
جرمن عوام کی دیگر ممالک کی غیر سنسر شدہ ثقافت اور ادب میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ سن 1951 میں فرینکفرٹ کتاب میلے کو ایک بڑی نمائش گاہ میں منتقل کر دیا گیا۔ دو برس بعد سن 1953 میں فرینکفرٹ کتاب میلے میں غیر ملکی پبلشرز کی تعداد جرمن پبلشرز کی تعداد سے بھی زیادہ ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
فٹ بال کے مداح
سن 1954 کے فٹ بال ورلڈکپ میں جرمنی کی فتح کے بعد عوام میں فٹ بال کے کھیل کی مقبولیت اس قدر بڑھ رہی تھی کہ فرینکفرٹ کتاب میلے میں جرمنی کے اہم ترین ناشر ’ بُردا فَیرلاگ‘ کے نمائندوں نے بھی قومی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرح کی جرسیاں اور شارٹس پہن رکھی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
گولڈن اکتوبر میں کتاب میلہ
سردیوں کی آمد سے قبل درختوں سے جھڑتے سنہری پتوں کے رومانوی مناظر سے بھرے گولڈن اکتوبر کے مہینے میں فرینکفرٹ کتاب میلے کا انعقاد جلد ہی ایک روایت بن گیا۔ تاہم مشرقی جرمن شہر لائپزگ میں سال نو کے آغاز پر کتاب میلہ منعقد کیا جاتا ہے تاکہ ادبی ذوق رکھنے والے شائقین دونوں میلوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ سن 1957 میں قریب 1300 ناشرین نے اس میلے میں اپنی نئی کتابیں پیش کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
اشاعت کے لائسنس کے لیے اہم تجارتی مقام
جرمن پبلشرز کی نئی اشاعتیں وفاقی جمہوریہ جرمنی کی عکاسی کرتی تھیں۔ فرینکفرٹ کتاب میلے میں نہ صرف ادب اور روشن خیال کتابیں پیش کی جاتی تھیں بلکہ 1960ء کی دہائی کے وسط سے ’گائیڈ بکس‘ اور قیمتی معیاری کاغذ پر شائع کی گئی مشہور کتابیں بھی دستیاب ہونے لگی تھیں۔ اس دوران فرینکفرٹ بین الاقوامی کاپی رائٹس ٹریڈ کا مرکز بن گیا کیونکہ تب تک کتاب کو ایک قیمتی شے کے طور تسلیم شدہ حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
مزاحمتی ادب
وفاقی جمہوریہ جرمنی میں طلبہ کی طرف سے احتجاج کے دور نے بھی فرینکفرٹ کے بین الاقوامی کتاب میلے پر اپنے اثرات چھوڑے اور سن 1968 کے میلے کو ’پولیس میلے‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مظاہرین سینیگال کے صدر سینگور کو امن انعام دیے جانے پر برہم تھے۔ کتاب میلے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی کیونکہ بائیں بازو کے ناشرین کے خلاف بھی مظاہرے کیے جا رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Heuse
فرینکفرٹ کتاب میلے میں سلمان رشدی کی شرکت
سن 1988میں سلمان رشدی کی کتاب ’سیٹَینک ورسِز‘ کی اشاعت کے بعد مسلم ممالک کے متعدد علماء کی طرف سے ان کے قتل کے فتوے جاری کر دیے گئے تھے۔ اس کے اگلے برس فرینکفرٹ کتاب میلے کے منتظمین کی جانب سے اسلامی دنیا میں بہت متنازعہ سمجھے جانے والے مصنف سلمان رشدی کو بطور مہمان مقرر مدعو کیا جانا بین الاقوامی اخبارات میں سرخیوں کی وجہ بنا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Eilmes
نوبل ادب انعام کے حق دار پیٹر ہانڈکے
سن 2019 میں ادب کے نوبل انعام کا حق دار قرار دیے جانے والے آسٹریا کے ڈرامہ نویس اور ناول نگار پیٹر ہانڈکے کی کتابیں بھی فرینکفرٹ کتاب میلے میں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔ پیٹر ہانڈکے ماضی میں کئی تنازعات کا شکار رہ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک سرب جنگی لیڈر سلوبوڈان میلوشےوچ کی تدفین میں شرکت تھی اور اس سے قبل بلقان کی جنگ کے دوران پیٹر ہانڈکے کا سربیا نواز موقف اور ان کی کتاب ’جسٹس فار سربیا‘ بھی۔
تصویر: Imago/Agencia EFE/C. Cabrera
خاص بات: خصوصی مہمان ملک
سن 1988 سے فرینکفرٹ کتاب میلے میں ہر سال کسی نہ کسی ایک ملک کو بطور خصوصی مہمان منتخب کیا جاتا ہے۔ اس ملک کو اپنے ہاں کی ادبی تخلیقات کو پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس مرتبہ سال 2019ء کے میلے کا خصوصی مہمان ملک ناروے ہو گا۔ سن 2006 میں خصوصی مہمان ملک بھارت تھا، جس نے فرینکفرٹ میں ہندی زبان کو متعارف کرانے کی کوشش بھی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
کتابیں سب کے لیے
فرینکفرٹ کتاب میلے میں مہمان ممالک کے ادب پاروں کو تراجم کے ساتھ پیش کرنے پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ لہٰذا تراجم اور ان کے حقوق اشاعت کی خرید و فروخت کے حوالے سے رابطوں کے لیے بھی یہ میلہ انتہائی اہم ہے۔ اس سال 70 ویں فرینکفرٹ بک فیئر میں تین لاکھ نوے ہزار کتابیں، آڈیو بکس، ای بکس اور دیگر روایتی اور ڈیجیٹل مصنوعات نمائش کے لیے رکھی جائیں گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Dedert
11 تصاویر1 | 11
حملہ آور کون؟
سلمان رشدی پر امریکی ریاست نیو یارک کے مغربی حصے میں ایک تقریب کے دوران چاقو سے حملہ کرنے والا شخص 24 سالہ ہادی مطار ہے، جسے موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ ملزم امریکی ریاست نیو جرسی کا رہائشی بتایا گیا ہے اور اس کے والدین لبنانی نژاد ہیں۔
ہادی مطار کے والدین کا تعلق جنوبی لبنان میں ایک ایسے علاقے سے تھا، جو اسرائیلی سرحد سے زیادہ دور نہیں۔ وہ کئی سال پہلے ترک وطن کر کے امریکہ میں آباد ہو گئے تھے اور ہادی مطار امریکہ ہی میں پیدا ہوا تھا۔
گرفتاری کے بعد اگلے روز جب اس ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے اپنے خلاف عائد کردہ اس الزام سے انکار کر دیا تھا کہ وہ اس حملے میں سلمان رشدی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔