سلمان رشدی پر حملہ کرنے والے ملزم نے اقبال جرم نہیں کیا
19 اگست 2022
سلمان رشدی پر حملہ کرنے والے ملزم نے عدالت میں پہلی پیشی کے موقع پر کہا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ ملزم نے اس سے قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اُس نے رشدی کی کتاب 'شیطانی آیات' کے صرف دو صفحات ہی پڑھے ہیں۔
اشتہار
معروف مصنف سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ کرنے والے نوجوان ملزم کو 18 اگست جمعرات کے روز پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان پر دوسرے درجے کے قتل کی کوشش کرنے کا الزام ہے، تاہم انہوں نے عدالت کے سامنے اپنے جرم کے اعتراف سے انکار کر دیا۔
24 سالہ نوجوان پر الزام ہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست نیویارک میں انہوں نے سلمان رشدی پر، اس وقت چاقو سے حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیا تھا، جب اسٹیج پر وہ اپنا لیکچر شروع کرنے والے تھے۔ حملے کے بعد مصنف کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا، اور انہیں عارضی طور پر وینٹی لیٹر پر بھی رکھنا پڑا تھا۔
اس واقعے کے بعد مبینہ حملہ آور نے میڈیا ادارے نیویارک پوسٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے خیال میں رشدی نے ''اسلام پر حملہ کیا'' ہے، حالانکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے مصنف سلمان رشدی کی متنازعہ کتاب ''شیطانی آیات'' کے صرف دو ہی صفحے پڑھے ہیں۔
انٹرویو کے دوران ملزم نے ایران کے سابق سپریم رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی کی بھی تعریف کی، جنہوں نے 33 برس قبل یہ ناول لکھنے پر سلمان رشدی کو قتل کرنے کا فتویٰ دیاتھا۔ حالانکہ بعد میں ایرانی حکومت نے اس فتوے سے اپنے آپ کو الگ کر لیا تھا۔
متنازعہ ناول 'شیطانی آیات' میں پیغمبر اسلام کی زندگی کو افسانوی شکل میں پیش کیا گیا ہے، تاہم بیشتر مسلم حلقوں نے اس پر شدید ناراضی ظاہر کی تھی۔
سلمان رشدی نے یہ کتاب سن 1988 میں لکھی تھی، جس نے ایک بڑا تنازعہ پیدا کر دیاتھا۔ اس کتاب کی وجہ سے ان کے خلاف موت کے فتوے جاری کیے گئے اور نتیجتاً رشدی کو تقریبا ًدس برس تک روپوش رہنا پڑا۔ ناول ''شیطانی آیات'' کے بعض مترجمین کو بھی نشانہ بنایا گیا اور سن 1991 میں جاپان میں ایک مترجم ہیتوشی ایگاراشی کو چاقو سے حملہ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے سلمان رشدی پر حملے کے بعد ایران کی حکومت نے کہا تھا کہ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مبینہ حملہ آور امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک لبنانی خاندان میں پیدا ہوا۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے مغربی نیویارک میں واقع چوٹاکوا انسٹی ٹیوشن تک کا سفر کیا اور رشدی کے لیکچر میں شرکت کے لیے ایک ٹکٹ بھی خریدا۔
جرم ثابت ہونے پر قتل کی کوشش کے الزام میں زیادہ سے زیادہ 25 برس تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
جمعہ 19 اگست کے روز معروف مصنف پال آسٹر اور ہری کنزرو سمیت متعدد مشہور مصنفین سلمان رشدی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نیویارک کی معروف پبلک لائبریری کے سامنے جمع ہونے والے ہیں، جہاں ان کی کتاب کے بعض اقتباسات بھی پڑھے جائیں گے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
فرینکفرٹ کتاب میلے کے ستر سال
جرمن شہر فرینکفرٹ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سن 1949 میں پہلی بار ایک کتاب میلے کا انعقاد ہوا تھا، جو اب یورپ کے سب سے بڑا کتاب میلا بن چکا ہے۔ دیکھیے فرینکفرٹ کتاب میلے کی ستر سالہ تاریخ کے بارے میں تصویری جھلکیاں۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
فرینکفرٹ میں ایک نیا آغاز
فولڈنگ کرسیاں اور عارضی طور پر سجائی گئی کتابوں کی الماریاں۔ ستمبر 1949ء میں فرینکفرٹ میں ہونے والے پہلے کتاب میلے نے حاضرین کو جرمنی کے ادبی ذخیرے کی ایک جھلک پیش کی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی میں علیحدگی کی وجہ سے فرینکفرٹ (مغربی جرمنی) میں اور لائپزگ (مشرقی جرمنی) میں دو مخلتف کتاب میلوں کا آغاز ہوا۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
ادب سے محبت
وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کے فوراﹰ بعد اسٹاک ایکسچینج کی تنظیموں اور پر عزم کتاب فروشوں نے فرینکفرٹ کتاب میلے کا آغاز کیا۔ سن 1949 میں 18 سے 23 ستمبر تک ناشرین، مصنفین اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں نے نہ صرف 200 سے زائد نمائش کنندگان کی اس خصوصی پیشکش کو دیکھا بلکہ آپس میں رابطے بھی قائم کیے۔ فرینکفرٹ کے پاؤل کیتھیڈرل میں 8500 کتابوں کی نمائش کی گئی، جس میں 14 ہزار افراد نے شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/frm
کیتھیڈرل سے نمائش گاہ میں منتقلی
جرمن عوام کی دیگر ممالک کی غیر سنسر شدہ ثقافت اور ادب میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ سن 1951 میں فرینکفرٹ کتاب میلے کو ایک بڑی نمائش گاہ میں منتقل کر دیا گیا۔ دو برس بعد سن 1953 میں فرینکفرٹ کتاب میلے میں غیر ملکی پبلشرز کی تعداد جرمن پبلشرز کی تعداد سے بھی زیادہ ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
فٹ بال کے مداح
سن 1954 کے فٹ بال ورلڈکپ میں جرمنی کی فتح کے بعد عوام میں فٹ بال کے کھیل کی مقبولیت اس قدر بڑھ رہی تھی کہ فرینکفرٹ کتاب میلے میں جرمنی کے اہم ترین ناشر ’ بُردا فَیرلاگ‘ کے نمائندوں نے بھی قومی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرح کی جرسیاں اور شارٹس پہن رکھی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
گولڈن اکتوبر میں کتاب میلہ
سردیوں کی آمد سے قبل درختوں سے جھڑتے سنہری پتوں کے رومانوی مناظر سے بھرے گولڈن اکتوبر کے مہینے میں فرینکفرٹ کتاب میلے کا انعقاد جلد ہی ایک روایت بن گیا۔ تاہم مشرقی جرمن شہر لائپزگ میں سال نو کے آغاز پر کتاب میلہ منعقد کیا جاتا ہے تاکہ ادبی ذوق رکھنے والے شائقین دونوں میلوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ سن 1957 میں قریب 1300 ناشرین نے اس میلے میں اپنی نئی کتابیں پیش کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
اشاعت کے لائسنس کے لیے اہم تجارتی مقام
جرمن پبلشرز کی نئی اشاعتیں وفاقی جمہوریہ جرمنی کی عکاسی کرتی تھیں۔ فرینکفرٹ کتاب میلے میں نہ صرف ادب اور روشن خیال کتابیں پیش کی جاتی تھیں بلکہ 1960ء کی دہائی کے وسط سے ’گائیڈ بکس‘ اور قیمتی معیاری کاغذ پر شائع کی گئی مشہور کتابیں بھی دستیاب ہونے لگی تھیں۔ اس دوران فرینکفرٹ بین الاقوامی کاپی رائٹس ٹریڈ کا مرکز بن گیا کیونکہ تب تک کتاب کو ایک قیمتی شے کے طور تسلیم شدہ حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
مزاحمتی ادب
وفاقی جمہوریہ جرمنی میں طلبہ کی طرف سے احتجاج کے دور نے بھی فرینکفرٹ کے بین الاقوامی کتاب میلے پر اپنے اثرات چھوڑے اور سن 1968 کے میلے کو ’پولیس میلے‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مظاہرین سینیگال کے صدر سینگور کو امن انعام دیے جانے پر برہم تھے۔ کتاب میلے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی کیونکہ بائیں بازو کے ناشرین کے خلاف بھی مظاہرے کیے جا رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Heuse
فرینکفرٹ کتاب میلے میں سلمان رشدی کی شرکت
سن 1988میں سلمان رشدی کی کتاب ’سیٹَینک ورسِز‘ کی اشاعت کے بعد مسلم ممالک کے متعدد علماء کی طرف سے ان کے قتل کے فتوے جاری کر دیے گئے تھے۔ اس کے اگلے برس فرینکفرٹ کتاب میلے کے منتظمین کی جانب سے اسلامی دنیا میں بہت متنازعہ سمجھے جانے والے مصنف سلمان رشدی کو بطور مہمان مقرر مدعو کیا جانا بین الاقوامی اخبارات میں سرخیوں کی وجہ بنا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Eilmes
نوبل ادب انعام کے حق دار پیٹر ہانڈکے
سن 2019 میں ادب کے نوبل انعام کا حق دار قرار دیے جانے والے آسٹریا کے ڈرامہ نویس اور ناول نگار پیٹر ہانڈکے کی کتابیں بھی فرینکفرٹ کتاب میلے میں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔ پیٹر ہانڈکے ماضی میں کئی تنازعات کا شکار رہ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک سرب جنگی لیڈر سلوبوڈان میلوشےوچ کی تدفین میں شرکت تھی اور اس سے قبل بلقان کی جنگ کے دوران پیٹر ہانڈکے کا سربیا نواز موقف اور ان کی کتاب ’جسٹس فار سربیا‘ بھی۔
تصویر: Imago/Agencia EFE/C. Cabrera
خاص بات: خصوصی مہمان ملک
سن 1988 سے فرینکفرٹ کتاب میلے میں ہر سال کسی نہ کسی ایک ملک کو بطور خصوصی مہمان منتخب کیا جاتا ہے۔ اس ملک کو اپنے ہاں کی ادبی تخلیقات کو پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس مرتبہ سال 2019ء کے میلے کا خصوصی مہمان ملک ناروے ہو گا۔ سن 2006 میں خصوصی مہمان ملک بھارت تھا، جس نے فرینکفرٹ میں ہندی زبان کو متعارف کرانے کی کوشش بھی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
کتابیں سب کے لیے
فرینکفرٹ کتاب میلے میں مہمان ممالک کے ادب پاروں کو تراجم کے ساتھ پیش کرنے پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ لہٰذا تراجم اور ان کے حقوق اشاعت کی خرید و فروخت کے حوالے سے رابطوں کے لیے بھی یہ میلہ انتہائی اہم ہے۔ اس سال 70 ویں فرینکفرٹ بک فیئر میں تین لاکھ نوے ہزار کتابیں، آڈیو بکس، ای بکس اور دیگر روایتی اور ڈیجیٹل مصنوعات نمائش کے لیے رکھی جائیں گی۔