برطانوی مصنف سلمان رشدی پر جمعہ 11 اگست کو امریکا میں چاقو سے حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہو گئے۔ رشدی پر یہ حملہ ایران کے روحانی لیڈر آیت اللہ خمینی کی طرف سے ان کے قتل کا فتویٰ دیے جانے کے 33 برس بعد ہوا۔
اشتہار
یہ 14 فروری 1989ء منگل کا دن تھا جب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نےبھارتی نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی کو ان کی کتاب 'سٹینک ورسز‘ لکھنے پر انہیں قتل کر دینے کا فتویٰ دیا تھا۔ خمینی کا استدلال تھا کہ رشدی نے اپنے اس ناول میں مذہب اسلام کی توہین کی تھی۔
مصنف اور ناشرین کو قتل کرنے کی ترغیب
اپنے فتوے میں آیت اللہ خمینی نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اس کتاب کے مصنف اور ناشرین کو جلد از جلد قتل کر دیں تاکہ ''پھر کوئی بھی اسلام کی مقدس اقدار کو ٹھیس پہنچانے کی جرآت نہ کرے۔‘‘
آیت اللہ خمینی اس وقت 89 برس کے تھے اور اس فتوے کے بعد وہ محض چار مہینے ہی زندہ رہے۔
اپنے فتوے میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی شخص سلمان رشدی کی موت کی سزا پر عملدرآمد کرتے ہوئے خود بھی مارا جاتا ہے تو وہ 'شہید‘ ہو گا اور جنت میں جائے گا۔
سلمان رشدی کی جان لینے والے کے لیے 2.8 ملین ڈالر کی رقم انعام کا بھی اعلان کیا گیا۔
برطانوی پولیس کی حفاظت اور رشدی کی مشکلات
آیت اللہ خمینی کی طرف سے سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ دیے جانے کے بعد برطانوی حکومت نے سلمان رشدی کی حفاظت کی ذمہ داری پولیس کو سونپ دی۔ وہ قریب 13 برس تک وہ جوزف انٹون کے فرضی نام سے مخلتف 'سیف ہاؤسز‘ یا محفوظ مقامات پر منتقل ہوتے رہے۔ پہلے چھ ماہ کے دوران تو 56 مرتبہ ان کے ٹھکانے بدلے گئے۔
رشدی کی مشکلات اس وقت اور بھی بڑھ گئیں جب ان کی امریکی ناول نگار اہلیہ ماریانے وِگنز سے ان کی علیحدگی ہو گئی۔ 'سٹینیک ورسز‘ انہی کو منسوب کی گئی تھی۔
رشدی نے 2012ء میں اپنی سرگزشتمیں اپنی ڈائری میں درج یاد کا ذکر کیا، ''میں بندھا ہوا ہوں اور جیل میں ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا تھا، ''میں بول بھی نہیں سکتا۔ میں ایک پارک میں اپنے بیٹے کے ساتھ فٹبال کو کِک کرنا چاہتا ہوں۔ عام معمول کی زندگی: میرا ناممکن خواب۔‘‘
اشتہار
رشدی کی کتاب پر رد عمل
سلمان رشدی کی کتاب 'سٹینک ورسز‘ پبلشر وائکنگ پینگوئن کی طرف سے ستمبر 1988ء میں شائع کی گئی۔
اکتوبر 1988ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اس کتاب کی بھارت میں درآمد پر پابندی عائد کر دی، اس امید پر کہ شاید وہ آئندہ انتخابات میں بھارتی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کر سکیں گے۔
اس کے علاوہ بھی دنیا کے قریب 20 دیگر ممالک نے اس کتاب پر پابندی عائد کر دی۔
جنوری 1989ء میں برطانیہ کے شمالی شہر بریڈفورڈ میں مسلمانوں نے کھلے عام اس کتاب کی کاپیاں نذر آتش کیں۔
اس کے قریب ایک ماہ بعد ہزاروں پاکستانیوں نے دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی 'انفارمیشن سینٹر‘ پر حملہ کیا۔ مظاہرین سلمان رشدی کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں پانچ مظاہرین مارے گئے۔
خمینی کے فتوے نے مغربی دنیا میں خوف وہراس پیدا کر دیا۔ یورپ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور لندن اور تہران کے سفارتی تعلقات قریب 20 برس تک منقطع رہے۔
رشدی نے 1990ء میں اپنے ایک مضمون 'اِن گُد فیتھ‘ میں اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش مگر یہ چیز بہت سے مسلمانوں کے لیے تسلی کا باعث نہ بن سکی۔
رشدی سے متعلق افراد پر حملے
رشدی نے 1991ء میں بتدریج عوامی زندگی کی طرف واپس آنے کی کوشش شروع کر دی، لیکن ان کے جاپانی مترجم کو اسی برس کے آخر میں قتل کر دیا گیا۔ ان کے اطالوی مترجم بھی کچھ دنوں کے بعد چاقو حملے کا نشانہ بنے جبکہ ناورے کے پبلشر دو برس بعد گولی کا نشانہ بنے۔ حالانکہ یہ بات کبھی واضح نہیں ہوئی کہ آیا یہ حملے خمینی کے فتوے کی وجہ سے ہوئے تھا یا نہیں۔
1993ء میں مسلمان مظاہرین نے وسطی ترک شہر سیواس کے ایک ہوٹل کو نذر آتش کر دیا کیونکہ وہاں عزیز نسیم موجود تھے جو سلمان رشدی کے اس ناول کا ترکی میں ترجمہ کرنا چاہتے تھے۔ عزیز نسیم تو وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر 37 دیگر افراد مارے گئے۔
1998ء میں تاہم ایران کے اصلاحات پسند صدر محمد خاتمی نے برطانیہ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ایران اب اس فتوے پر عمل نہیں کرے گا۔ تاہم خمینی کے پس رو آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2005ء میں کہا کہ وہ اب بھی یہی یقین رکھتے ہیں کہ سلمان رشدی نے ایک 'مرتد‘ ہیں اور اسلام کے رو سے ان کا قتل جائز ہے۔
فرینکفرٹ کتاب میلے کے ستر سال
جرمن شہر فرینکفرٹ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سن 1949 میں پہلی بار ایک کتاب میلے کا انعقاد ہوا تھا، جو اب یورپ کے سب سے بڑا کتاب میلا بن چکا ہے۔ دیکھیے فرینکفرٹ کتاب میلے کی ستر سالہ تاریخ کے بارے میں تصویری جھلکیاں۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
فرینکفرٹ میں ایک نیا آغاز
فولڈنگ کرسیاں اور عارضی طور پر سجائی گئی کتابوں کی الماریاں۔ ستمبر 1949ء میں فرینکفرٹ میں ہونے والے پہلے کتاب میلے نے حاضرین کو جرمنی کے ادبی ذخیرے کی ایک جھلک پیش کی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی میں علیحدگی کی وجہ سے فرینکفرٹ (مغربی جرمنی) میں اور لائپزگ (مشرقی جرمنی) میں دو مخلتف کتاب میلوں کا آغاز ہوا۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
ادب سے محبت
وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کے فوراﹰ بعد اسٹاک ایکسچینج کی تنظیموں اور پر عزم کتاب فروشوں نے فرینکفرٹ کتاب میلے کا آغاز کیا۔ سن 1949 میں 18 سے 23 ستمبر تک ناشرین، مصنفین اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں نے نہ صرف 200 سے زائد نمائش کنندگان کی اس خصوصی پیشکش کو دیکھا بلکہ آپس میں رابطے بھی قائم کیے۔ فرینکفرٹ کے پاؤل کیتھیڈرل میں 8500 کتابوں کی نمائش کی گئی، جس میں 14 ہزار افراد نے شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/frm
کیتھیڈرل سے نمائش گاہ میں منتقلی
جرمن عوام کی دیگر ممالک کی غیر سنسر شدہ ثقافت اور ادب میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ سن 1951 میں فرینکفرٹ کتاب میلے کو ایک بڑی نمائش گاہ میں منتقل کر دیا گیا۔ دو برس بعد سن 1953 میں فرینکفرٹ کتاب میلے میں غیر ملکی پبلشرز کی تعداد جرمن پبلشرز کی تعداد سے بھی زیادہ ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
فٹ بال کے مداح
سن 1954 کے فٹ بال ورلڈکپ میں جرمنی کی فتح کے بعد عوام میں فٹ بال کے کھیل کی مقبولیت اس قدر بڑھ رہی تھی کہ فرینکفرٹ کتاب میلے میں جرمنی کے اہم ترین ناشر ’ بُردا فَیرلاگ‘ کے نمائندوں نے بھی قومی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرح کی جرسیاں اور شارٹس پہن رکھی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
گولڈن اکتوبر میں کتاب میلہ
سردیوں کی آمد سے قبل درختوں سے جھڑتے سنہری پتوں کے رومانوی مناظر سے بھرے گولڈن اکتوبر کے مہینے میں فرینکفرٹ کتاب میلے کا انعقاد جلد ہی ایک روایت بن گیا۔ تاہم مشرقی جرمن شہر لائپزگ میں سال نو کے آغاز پر کتاب میلہ منعقد کیا جاتا ہے تاکہ ادبی ذوق رکھنے والے شائقین دونوں میلوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ سن 1957 میں قریب 1300 ناشرین نے اس میلے میں اپنی نئی کتابیں پیش کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
اشاعت کے لائسنس کے لیے اہم تجارتی مقام
جرمن پبلشرز کی نئی اشاعتیں وفاقی جمہوریہ جرمنی کی عکاسی کرتی تھیں۔ فرینکفرٹ کتاب میلے میں نہ صرف ادب اور روشن خیال کتابیں پیش کی جاتی تھیں بلکہ 1960ء کی دہائی کے وسط سے ’گائیڈ بکس‘ اور قیمتی معیاری کاغذ پر شائع کی گئی مشہور کتابیں بھی دستیاب ہونے لگی تھیں۔ اس دوران فرینکفرٹ بین الاقوامی کاپی رائٹس ٹریڈ کا مرکز بن گیا کیونکہ تب تک کتاب کو ایک قیمتی شے کے طور تسلیم شدہ حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
مزاحمتی ادب
وفاقی جمہوریہ جرمنی میں طلبہ کی طرف سے احتجاج کے دور نے بھی فرینکفرٹ کے بین الاقوامی کتاب میلے پر اپنے اثرات چھوڑے اور سن 1968 کے میلے کو ’پولیس میلے‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مظاہرین سینیگال کے صدر سینگور کو امن انعام دیے جانے پر برہم تھے۔ کتاب میلے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی کیونکہ بائیں بازو کے ناشرین کے خلاف بھی مظاہرے کیے جا رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Heuse
فرینکفرٹ کتاب میلے میں سلمان رشدی کی شرکت
سن 1988میں سلمان رشدی کی کتاب ’سیٹَینک ورسِز‘ کی اشاعت کے بعد مسلم ممالک کے متعدد علماء کی طرف سے ان کے قتل کے فتوے جاری کر دیے گئے تھے۔ اس کے اگلے برس فرینکفرٹ کتاب میلے کے منتظمین کی جانب سے اسلامی دنیا میں بہت متنازعہ سمجھے جانے والے مصنف سلمان رشدی کو بطور مہمان مقرر مدعو کیا جانا بین الاقوامی اخبارات میں سرخیوں کی وجہ بنا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Eilmes
نوبل ادب انعام کے حق دار پیٹر ہانڈکے
سن 2019 میں ادب کے نوبل انعام کا حق دار قرار دیے جانے والے آسٹریا کے ڈرامہ نویس اور ناول نگار پیٹر ہانڈکے کی کتابیں بھی فرینکفرٹ کتاب میلے میں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔ پیٹر ہانڈکے ماضی میں کئی تنازعات کا شکار رہ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک سرب جنگی لیڈر سلوبوڈان میلوشےوچ کی تدفین میں شرکت تھی اور اس سے قبل بلقان کی جنگ کے دوران پیٹر ہانڈکے کا سربیا نواز موقف اور ان کی کتاب ’جسٹس فار سربیا‘ بھی۔
تصویر: Imago/Agencia EFE/C. Cabrera
خاص بات: خصوصی مہمان ملک
سن 1988 سے فرینکفرٹ کتاب میلے میں ہر سال کسی نہ کسی ایک ملک کو بطور خصوصی مہمان منتخب کیا جاتا ہے۔ اس ملک کو اپنے ہاں کی ادبی تخلیقات کو پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس مرتبہ سال 2019ء کے میلے کا خصوصی مہمان ملک ناروے ہو گا۔ سن 2006 میں خصوصی مہمان ملک بھارت تھا، جس نے فرینکفرٹ میں ہندی زبان کو متعارف کرانے کی کوشش بھی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
کتابیں سب کے لیے
فرینکفرٹ کتاب میلے میں مہمان ممالک کے ادب پاروں کو تراجم کے ساتھ پیش کرنے پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ لہٰذا تراجم اور ان کے حقوق اشاعت کی خرید و فروخت کے حوالے سے رابطوں کے لیے بھی یہ میلہ انتہائی اہم ہے۔ اس سال 70 ویں فرینکفرٹ بک فیئر میں تین لاکھ نوے ہزار کتابیں، آڈیو بکس، ای بکس اور دیگر روایتی اور ڈیجیٹل مصنوعات نمائش کے لیے رکھی جائیں گی۔