پہلے روز مقدمے کے آغاز پر استغاثہ نے سلمان رشدی پر حملے کے ملزم کے خلاف اپنے کیس کا خاکہ پیش کیا اور کیس کے متعدد گواہوں نے چاقو کے حملے کے بعد پیش آنے والی افراتفری کی تفصیلات فراہم کیں۔
اس حملے سے سلمان رشدی کے ایک ہاتھ اور آنکھ کو مستقل طور پر نقصان پہنچا اور اندرونی چوٹیں بھی آئی تھیں۔تصویر: Arne Dedert/dpa/picture alliance
اشتہار
سن 2022 میں نیو یارک میں ایک اسٹیج پر ناول نگار سلمان رشدی کو وحشیانہ انداز میں چھرا گھونپنے والے شخص کے خلاف مقدمے کی سماعت پیر کے روز نیویارک کی ایک کاؤنٹی عدالت میں شروع ہوئی۔
چوبیس سالہ حملہ آور ہادی ایم پر رشدی کو ایک درجن سے زائد مرتبہ چاقو گھونپنے کے لیے دوسرے درجے کی قتل کی کوشش اور سیکنڈ ڈگری حملے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ادھر ملزم نے قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی ہے۔
اس مقدمے کے لیے پچھلے ہفتے ایک جیوری کا انتخاب کیا گیا تھا اور اس عمل کے دوران تین روز تک حملہ آور کو عدالت میں ہی رکھا گیا، جہاں وہ اپنے وکلاء سے صلاح و مشورہ کرتے رہے۔
اس کیس کے تمام گواہوں کی گواہی ریکارڈ ہو جانے کے بعد، مقدمے کی سماعت ایک ہفتے سے 10 دن کے اندر تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔
استغاثہ نے الزام لگایا ہے کہ مشتبہ شخص نے "بغیر کسی ہچکچاہٹ کے" مصنف پر چاقو گھونپ دیا اور اس نے مسٹر رشدی کو تقریباً قتل کر دیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سلمان رشدی پر پیچھے سے اس تیزی سے اچانک حملہ کیا گیا کہ انہیں کچھ پتہ ہی نہیں چلا کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔
مقدمے کے دوران رشدی اور حملہ آور کا آمنا سامنا ہو گا
یہ حملہ سن 2022 میں ہوا تھا، جس کے تقریبا دو برس بعد مقدمے کی سماعت کے دوران 77 سالہ سلمان رشدی پہلی بار اپنے حملہ آور کے روبرو ہوں گے۔
حملہ آور نے رشدی کے پیٹ اور گردن میں اس دوران کئی بار چھرا گھونپا، جب پولیس اہلکار اسے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ حملہ سن 2022 میں ہوا تھا، جس کے تقریبا دو برس بعد مقدمے کی سماعت کے دوران 77 سالہ سلمان رشدی پہلی بار اپنے حملہ آور کے روبرو ہوں گےتصویر: Kai Pfaffenbach/AP Photo/picture alliance
یہ حملہ اس وقت ہوا تھا، جب مغربی نیویارک میں شوتاؤکا انسٹی ٹیوشن میں ہونے والی ایک ادبی کانفرنس کے لیے ہزاروں لوگوں جمع تھے۔
خون میں لت پت رشدی کو ہسپتال لے جایا گیا اور کئی گھنٹے تک ان کی سرجری ہوئی۔ اس حملے سے ان کے ایک ہاتھ اور آنکھ کو مستقل طور پر نقصان پہنچا اور اندرونی چوٹیں بھی آئی تھیں۔
اشتہار
رشدی مصنفین کو محفوظ رکھنے پر بات کرنے والے تھے
ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی کی جانب سے رشدی کے ناول ''شیطانی آیات'' پر سن 1989 میں ان کے خلاف ''فتویٰ'' جاری کرنے کے بعد سے ہی انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ روپوشی میں گزارا۔
برسوں تک سخت حفاظتی تنہائی کے بعد رشدی گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دوبارہ آزادانہ طور پر سفر کرنا شروع کیا۔ انہوں نے ماضی میں اس بارے میں بات بھی کی تھی کہ کس طرح انہوں نے کبھی بھی خطرے سے خود کو محفوظ نہیں سمجھا۔
جب اگست 2022 میں ان پر حملہ ہوا، تو وہ مصنفین کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے بارے میں نیویارک کی کانفرنس میں بات کرنے والے تھے۔
رشدی نے گزشتہ سال ریلیز ہونے والی ایک یادداشت "چاقو: مراقبہ کے بعد اور قتل کی کوشش" میں اپنے قتل کی کوشش سے بچنے کے بارے میں تفصیلات لکھی تھیں۔
اس واقعے سے متعلق ایک الگ وفاقی فرد جرم میں ہادی ایم پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس الزام میں کہا گیا ہے کہ وہ فتویٰ پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
فرینکفرٹ کتاب میلے کے ستر سال
جرمن شہر فرینکفرٹ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سن 1949 میں پہلی بار ایک کتاب میلے کا انعقاد ہوا تھا، جو اب یورپ کے سب سے بڑا کتاب میلا بن چکا ہے۔ دیکھیے فرینکفرٹ کتاب میلے کی ستر سالہ تاریخ کے بارے میں تصویری جھلکیاں۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
فرینکفرٹ میں ایک نیا آغاز
فولڈنگ کرسیاں اور عارضی طور پر سجائی گئی کتابوں کی الماریاں۔ ستمبر 1949ء میں فرینکفرٹ میں ہونے والے پہلے کتاب میلے نے حاضرین کو جرمنی کے ادبی ذخیرے کی ایک جھلک پیش کی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی میں علیحدگی کی وجہ سے فرینکفرٹ (مغربی جرمنی) میں اور لائپزگ (مشرقی جرمنی) میں دو مخلتف کتاب میلوں کا آغاز ہوا۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
ادب سے محبت
وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کے فوراﹰ بعد اسٹاک ایکسچینج کی تنظیموں اور پر عزم کتاب فروشوں نے فرینکفرٹ کتاب میلے کا آغاز کیا۔ سن 1949 میں 18 سے 23 ستمبر تک ناشرین، مصنفین اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں نے نہ صرف 200 سے زائد نمائش کنندگان کی اس خصوصی پیشکش کو دیکھا بلکہ آپس میں رابطے بھی قائم کیے۔ فرینکفرٹ کے پاؤل کیتھیڈرل میں 8500 کتابوں کی نمائش کی گئی، جس میں 14 ہزار افراد نے شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/frm
کیتھیڈرل سے نمائش گاہ میں منتقلی
جرمن عوام کی دیگر ممالک کی غیر سنسر شدہ ثقافت اور ادب میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ سن 1951 میں فرینکفرٹ کتاب میلے کو ایک بڑی نمائش گاہ میں منتقل کر دیا گیا۔ دو برس بعد سن 1953 میں فرینکفرٹ کتاب میلے میں غیر ملکی پبلشرز کی تعداد جرمن پبلشرز کی تعداد سے بھی زیادہ ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
فٹ بال کے مداح
سن 1954 کے فٹ بال ورلڈکپ میں جرمنی کی فتح کے بعد عوام میں فٹ بال کے کھیل کی مقبولیت اس قدر بڑھ رہی تھی کہ فرینکفرٹ کتاب میلے میں جرمنی کے اہم ترین ناشر ’ بُردا فَیرلاگ‘ کے نمائندوں نے بھی قومی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرح کی جرسیاں اور شارٹس پہن رکھی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
گولڈن اکتوبر میں کتاب میلہ
سردیوں کی آمد سے قبل درختوں سے جھڑتے سنہری پتوں کے رومانوی مناظر سے بھرے گولڈن اکتوبر کے مہینے میں فرینکفرٹ کتاب میلے کا انعقاد جلد ہی ایک روایت بن گیا۔ تاہم مشرقی جرمن شہر لائپزگ میں سال نو کے آغاز پر کتاب میلہ منعقد کیا جاتا ہے تاکہ ادبی ذوق رکھنے والے شائقین دونوں میلوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ سن 1957 میں قریب 1300 ناشرین نے اس میلے میں اپنی نئی کتابیں پیش کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
اشاعت کے لائسنس کے لیے اہم تجارتی مقام
جرمن پبلشرز کی نئی اشاعتیں وفاقی جمہوریہ جرمنی کی عکاسی کرتی تھیں۔ فرینکفرٹ کتاب میلے میں نہ صرف ادب اور روشن خیال کتابیں پیش کی جاتی تھیں بلکہ 1960ء کی دہائی کے وسط سے ’گائیڈ بکس‘ اور قیمتی معیاری کاغذ پر شائع کی گئی مشہور کتابیں بھی دستیاب ہونے لگی تھیں۔ اس دوران فرینکفرٹ بین الاقوامی کاپی رائٹس ٹریڈ کا مرکز بن گیا کیونکہ تب تک کتاب کو ایک قیمتی شے کے طور تسلیم شدہ حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
مزاحمتی ادب
وفاقی جمہوریہ جرمنی میں طلبہ کی طرف سے احتجاج کے دور نے بھی فرینکفرٹ کے بین الاقوامی کتاب میلے پر اپنے اثرات چھوڑے اور سن 1968 کے میلے کو ’پولیس میلے‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مظاہرین سینیگال کے صدر سینگور کو امن انعام دیے جانے پر برہم تھے۔ کتاب میلے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی کیونکہ بائیں بازو کے ناشرین کے خلاف بھی مظاہرے کیے جا رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Heuse
فرینکفرٹ کتاب میلے میں سلمان رشدی کی شرکت
سن 1988میں سلمان رشدی کی کتاب ’سیٹَینک ورسِز‘ کی اشاعت کے بعد مسلم ممالک کے متعدد علماء کی طرف سے ان کے قتل کے فتوے جاری کر دیے گئے تھے۔ اس کے اگلے برس فرینکفرٹ کتاب میلے کے منتظمین کی جانب سے اسلامی دنیا میں بہت متنازعہ سمجھے جانے والے مصنف سلمان رشدی کو بطور مہمان مقرر مدعو کیا جانا بین الاقوامی اخبارات میں سرخیوں کی وجہ بنا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Eilmes
نوبل ادب انعام کے حق دار پیٹر ہانڈکے
سن 2019 میں ادب کے نوبل انعام کا حق دار قرار دیے جانے والے آسٹریا کے ڈرامہ نویس اور ناول نگار پیٹر ہانڈکے کی کتابیں بھی فرینکفرٹ کتاب میلے میں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔ پیٹر ہانڈکے ماضی میں کئی تنازعات کا شکار رہ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک سرب جنگی لیڈر سلوبوڈان میلوشےوچ کی تدفین میں شرکت تھی اور اس سے قبل بلقان کی جنگ کے دوران پیٹر ہانڈکے کا سربیا نواز موقف اور ان کی کتاب ’جسٹس فار سربیا‘ بھی۔
تصویر: Imago/Agencia EFE/C. Cabrera
خاص بات: خصوصی مہمان ملک
سن 1988 سے فرینکفرٹ کتاب میلے میں ہر سال کسی نہ کسی ایک ملک کو بطور خصوصی مہمان منتخب کیا جاتا ہے۔ اس ملک کو اپنے ہاں کی ادبی تخلیقات کو پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس مرتبہ سال 2019ء کے میلے کا خصوصی مہمان ملک ناروے ہو گا۔ سن 2006 میں خصوصی مہمان ملک بھارت تھا، جس نے فرینکفرٹ میں ہندی زبان کو متعارف کرانے کی کوشش بھی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
کتابیں سب کے لیے
فرینکفرٹ کتاب میلے میں مہمان ممالک کے ادب پاروں کو تراجم کے ساتھ پیش کرنے پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ لہٰذا تراجم اور ان کے حقوق اشاعت کی خرید و فروخت کے حوالے سے رابطوں کے لیے بھی یہ میلہ انتہائی اہم ہے۔ اس سال 70 ویں فرینکفرٹ بک فیئر میں تین لاکھ نوے ہزار کتابیں، آڈیو بکس، ای بکس اور دیگر روایتی اور ڈیجیٹل مصنوعات نمائش کے لیے رکھی جائیں گی۔