1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بالی وڈ: اداکار اور فلم ساز ٹی وی چینلوں کے خلاف عدالت میں

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
13 اکتوبر 2020

بالی وڈ میں اداکاروں اور متعدد سرکردہ فلم سازوں کی کمپنیوں نے ریپبلک اور ٹائمز ناؤ جیسے ٹی وی چينلوں کو فلم انڈسٹری کے خلاف توہین آمیز مواد نشرکرنے سے باز رکھنے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کیا ہے۔

Filmplakat My Name is Khan

معروف اداکار سلمان خان، شاہ رخ خان، عامر خان، اکشے کمار، اجے دیوگن اور کرن جوہر کے دھرما پروڈکشن سمیت بالی وڈ کی تقریباً چالیس فلم ساز کمپنیوں، سنیما ایسوسی ایشنز اور پروڈکشن ہاؤسز نے مشترکہ طور پر دہلی ہائی کورٹ میں ریپبلک ٹی وی، ٹائمز ناؤ چینل اور ان کے سینیئر مدیروں کے خلاف ایک درخواست دائر کی ہے۔ اس عرضی میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ان چینلز کو، ''فلمی صنعت اور اس سے وابستہ شخصیات کے خلاف غیر ذمہ دارانہ، توہین آمیز اور بیہودہ تبصرہ کرنے، شائع یا نشر کرنے سے باز رکھا جائے۔''

حالیہ کچھ دنوں سے یہ ٹی وی چینلز بھارتی فلمی صنعت بالی وڈ سے متعلق بحث کے دوران فلمی صنعت کے لیے، '' گندگی، نجاست، قحبہ گری اور منشیات کے اڈے'' جیسے انتہائی توہین آمیز الفاظ کے استعمال سے انڈسٹری کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اسی پس منظر میں یہ مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔

سنیئر صحافی راجیش جوشی کہتے ہیں کہ بھارت میں فلمی صنعت اور فن کار عام طور پر جمہوری قدروں کے حامی رہے ہیں اور بالی وڈ کا بھی بڑا طبقہ انتہا پسند نظریات سے دور رہا ہے۔ تاہم اس حکومت کے دور میں مسلسل دائیں بازو کے نظریات کو فروغ دینے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔  ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں انہوں نے کہا، ''سوشانت سنگھ راجپوت اور ریا کا جو معاملہ ہوا اس کے بہانے سے  میڈیا کا ایک خاص طبقہ بالی وڈ کو ایک حاض رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔''

 راجیش جوشی کے مطابق پہلے تو ایسا لگتا تھا کہ ''بالی وڈ بھی مختلف حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے تاہم اب جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو سب متحدہ ہوگئے ہیں۔'' ان کا کہنا ہے کہ یہ کیس میڈیا کے خلاف نہیں ہے بلکہ صرف چند چینلز کے خلاف ہے جو گزشتہ کچھ دنوں سے پوری صنعت کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ''دائیں بازو کے لوگوں کی بھی مسلسل کوشش رہی ہے کہ بالی وڈ میں ان کا بھی اثر و رسوخ ہو اور ان کے نظریات کے مطابق فلمیں بنیں تو یہ تمام پہلو اسی کا حصہ ہیں۔''

اس برس جون میں اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی خود کشی کے بعد سے بھارتی نیوز چینلوں نے جس طرح کی کوریج کی ہے اس پر کئی حلقوں کی جانب سے سوال اٹھتے رہے ہیں۔ بعض چینل اس معاملے پر مستقل قیاس آرائیوں اور افواہوں کو ہوا دینے کا کام کرتے رہے ہیں جس سے فلمی صنعت کی شبیہہ متاثر ہوئی ہے۔

ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ارنب گوسوامی نے اس حوالے سے ایک بحث کے دوران کئی بار سلمان خان کا بڑے ہی توہین آمیز انداز میں نام لیتے ہوئے کہا تھا کہ ''اب وہ کہاں ہے، آخر بولتا کیوں نہیں ہے؟'' ایک دوسرے پروگرام میں انہوں نے  بالی وڈ میں مبینہ منشیات کے چلن کا ذکر کرتے ہوئے اداکاروں پر بے بنیاد الزام عائد کیے۔ ٹائمز ناؤ ٹی وی چینلز بھی پیچھے نہیں ہے اور وہ بھی گزشتہ کئی ماہ سے اسی طرز کے پروگرام نشر کرتا رہا ہے جس میں بالی وڈ پر بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں

انہیں وجوہات کی بنا پر اداکار شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان اور اکشے کمار کی پروڈکشن کمپنیوں سمیت متعدد فلم ساز اداروں نے غیر ذمہ دارنہ اور جانبدارانہ رپورٹنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔

 یہ سول کیس بالی وڈ کی طرف سے ڈی ایس کے لیگل کمپنی نے دائر کیا ہے۔ اس میں ریپبلک ٹی وی کے مدیر ارنب گوسوامی، کنسلٹنگ ایڈیٹر پردیپ بھنڈاری، ٹائمز ناؤ چینل کے ایڈیٹر ان چیف راہول شیو شنکر اور نیٹ ورک ایڈیٹر ناویکا کمار کا نام خاص طور پر شامل کیا گیا ہے۔

 بعض سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ایسے میڈیا اداروں او رمدیروں کو بالی وڈ سے متعلق نازیبا باتیں کہنے اور ہتک آمیز تبصرہ کرنے پر روک لگائی جائی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت اس بات کو یقینی بنائے کہ ٹی وی چینلز اپنی نشریات میں اصول و ضوابط کی پابندی کریں اور فلمی صنعت اور بالی وڈ کی شخصیات کے خلاف جو بھی توہین آمیز مواد نشر یا شائع کیا گیا ہے اسے فوری طور پر ہٹالیا جائے۔ اس عرضی میں عدالت سے بالی وڈ کی شخصیات کا میڈیا ٹرائل بند کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں مذکورہ چینلوں نے بالی وڈ کے خلاف انتہائی توہین آمیز الفاظ کا استعمال کیا ہے اور عدالت کو چاہیے کہ وہ میڈیا اداروں کو بالی وڈ کی شخصیات کی نجی زندگی کے ساتھ مداخلت کرنے سے باز رکھے۔

بھارت کی ایک مسلم تنظیم جمیعت علماء ہند نے بھی تبلیغی جماعت کی آڑ میں ملک میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور مذہبی بنیادوں پر نفرت پھیلانے کے لیے میڈیا کے خلاف ایک کیس درج کیا تھا جس کی سماعت سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔ عدالت نے اس معاملے میں گزشتہ سماعت کے دوران مرکزی حکومت کے رویے پراسے آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

 اس کیس سے وابستہ ایک سرکردہ وکیل مجیب الرحمان کا کہنا ہے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ بعض میڈیا ادارے غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنا رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔''اس میں عوام کو متاثر کرنے کی طاقت ہے اس لیے اسے بہت سوچ سمجھ کر اپنے الفاظ استعمال کرنے چاہیں۔ میں تو کہوں گا کہ اس کی تفتیش ہونی چاہیے اور اگر یہ پایا جائے کہ ان چینلوں نے دانستہ طور پر کسی سازش کے تحت ایسا کیا گیا ہے تو ان کے خلاف کرمنل کیس درج ہونا چاہیے۔''

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں