سلوواکیہ کا مہاجرت پر عالمی معاہدے سے دستبرداری کا اعلان
26 نومبر 2018
یورپی یونین کے رکن ملک سلوواکیہ نے منظم مہاجرت پر اقوام متحدہ کے ایک معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس سے قبل امریکا اور آسٹریلیا کے علاوہ متعدد یورپی ممالک اس عالمی مجوزہ ڈیل سے باہر نکلنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. W Cerny
اشتہار
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سلوواکیہ کے وزیر اعظم پیٹر پیلیگرینی نے برسلز میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،’’سلووواکیہ کسی صورت میں بھی مراکش میں ہونے والی کانفرنس میں اقوام متحدہ کے مہاجرت پر معاہدے کی حمایت اور اس سے اتفاق نہیں کرے گا۔ ہماری حکومت اس بات سے متفق نہیں کہ قانونی اور غیر قانونی مہاجرت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اقتصادی وجوہات پر امیگریشن غیر قانونی، ضرر رساں اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔‘‘
سلوواکیہ کے وزیر اعظم نے مزید کہا،’’اگر سلوواکیہ حکومت کے کسی بھی نمائندے کی آئندہ ماہ مراکش میں عالمی ادارے کی مہاجرت پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت از خود اس کا معاہدے پر متفق ہونا سمجھا جاتا ہے تو سلوواکیہ کے وزیر خارجہ میرو سلاو لاجکاک سمیت کوئی بھی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔‘‘
لاجکاک جنہیں اقوام متحدہ کے منظم اور محفوظ مہاجرت پر مجوزہ ڈیل کا حمایتی سمجھا جاتا ہے، پہلے کہہ چکے ہیں کہ اگر سلوواکیہ نے اس دستاویز کی توثیق نہیں کی تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ تاہم وزیر اعظم پیلیگرینی نے اتوار کے روز کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ وزیر خارجہ لاجکاک کو منا لیں گے۔
خیال رہے کہ امیگریشن کے مجوزہ عالمی معاہدے پر اٹھارہ ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد رواں برس جولائی میں اتفاق رائے ہوا تھا اور اسے آئندہ ماہ مراکش میں ہونے والی کانفرنس میں منظور کر لیا جائے گا۔
تصویر: dpa
مجوزہ ڈیل کو ہنگری ، امریکا، آسٹریا، آسٹریلیا،چیک ری پبلک اور پولینڈ پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ بلغاریہ نے بھی اس سے باہر نکلنے کا عندیہ دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے قوم پرست ارکان پارلیمان کی جانب سے کیے گئے اُس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا جس میں انہوں نے منظم امیگریشن پر اقوام متحدہ کی اس ڈیل سے دستبردار ہونے کو کہا تھا۔ میرکل کا کہنا تھا کہ مہاجرت پر عالمی معاہدہ ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے کہ کس طرح عالمی مسائل کو بین الاقوامی تعاون کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے مجوزہ معاہدے کا مقصد عالمی سطح پر مہاجرت کو منظم کرنا اور تارکین وطن اور مہاجرین کے حقوق کو مضبوط بنانا ہے۔ اس معاہدے میں شامل شقوں میں مہاجرین کے خاندانوں کے ساتھ اُن کی ری یونین، صحت اور تعلیم کی سہولتوں تک رسائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہجرت کرنے والے پناہ گزینوں کے حقوق کو تسلیم کرنا شامل ہے۔
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسی
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔