سلوواک وزیر اعظم فیتسو فائرنگ میں زخمی، ہسپتال میں زیرعلاج
15 مئی 2024
یورپی یونین کے رکن ملک سلوواکیہ کے وزیر اعظم رابرٹ فیتسو آج بدھ پندرہ مئی کی سہ پہر ایک حملے میں زخمی ہو گئے۔ ان پر کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں انہیں پیٹ میں گولی لگی اور وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
اشتہار
سلوواک میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق رابرٹ فیتسو پر یہ فائرنگ ملکی دارالحکومت براتسلاوا سے شمال مشرق کی طرف واقع ہاندلووا نامی شہر میں کی گئی۔ ان پر فائرنگ کرنے والے حملہ آور کو موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم فیتسو پر یہ فائرنگ اس وقت کی گئی جب وہ ایک حکومتی اجلاس کے بعد باہر نکلے تھے۔ مختلف خبر رساں اداروں نے عینی شایدہن کے حوالے سے بتایا ہے کہ رابرٹ فیتسو پر حملے کے وقت کئی مرتبہ گولی چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔
اس دوران کم از کم ایک گولی رابرٹ فیتسو کے پیٹ میں لگی اور ان کے محافظ ان کو فوری طور پر ان کی گاڑی میں سوار کرا کے موقع سے روانہ ہو گئے۔ اس حملے کے کچھ دیر بعد ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ سلوواک وزیر اعظم فائرنگ کے نتیجے میں پیٹ میں لگنے والے زخم کے باعث ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
فیتسو کو ایک گولی پیٹ میں لگی
ملکی براڈکاسٹر ٹی اے تھری اور سلوواک نیوز ایجنسی ٹی اے ایس آر نے اپنی رپورٹوں میں ملکی پارلیمان کے نائب سربراہ لُوبوس بلاہا کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ وزیر اعظم فیتسو کو اس حملے میں پیٹ میں ایک گولی لگی، جس کے بعد 59 سالہ سربراہ حکومت کا ہسپتال میں علاج جاری ہے۔
رابرٹ فیتسو پر فائرنگ کے واقعے کے فوری بعد ملکی ایمرجنسی سروسز کا ایک ہیلی کاپٹر ہاندلووا بھجوا دیا گیا تھا، اور غالباﹰ اسی ہیلی کاپٹر کے ذریعے زخمی وزیر اعظم کو ہسپتال پہنچایا گیا۔
اشتہار
ہاندلووا میں حکومتی اجلاس
فیتسو پر ہاندلووا نامی جس شہر میں حکومت کے ایک اجلاس کے بعد فائرنگ کی گئی، وہ ملکی دارالحکومت براتسلاوا سے 190 کلومیٹر شمال مشرق کی طرف واقع ہے۔ رابرٹ فیتسو گزشتہ برس کے اواخر میں اقتدار میں آئے تھے اور ان کی حکومت کا ایک اجلاس ہاندلووا میں اس لیے ہو رہا تھا کہ انہوں نے ملک کے مختلف خطوں کے مرحلہ وار دوروں کا پروگرام بنا رکھا تھا۔
سلوواکیہ یورپی یونین اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو دونوں کا رکن ملک ہے اور وہاں رابرٹ فیتسو گزشتہ برس چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنے تھے۔ فیتسو کا سیاسی کیریئر تین عشروں پر محیط ہے اور اس دوران ان کی سیاسی سوچ اور ترجیحات بھی بدلتی رہی ہیں۔ وہ مرکزی دھارے کے یورپ نواز سیاست دان بھی رہے ہیں اور یورپی یونین اور امریکہ کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے سیاسی رہنما بھی۔
یورپی کمیشن کی صدر کی طرف سے حملے کی مذمت
یورپی یونین کے کمیشن کی صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین نے رابرٹ فیتسو پر حملے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ وہ اس حملے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہیں۔
فان ڈئر لاین نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا، ''میں وزیر اعظم رابرٹ فیتسو پر اس بزدلانہ حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہوں۔ ایسے پرتشدد واقعات کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں اور ایسے اقدامات اس جمہوریت کو نیچا دکھانے کی کوشش ہیں، جو ہماری عزیز ترین متاع ہے۔‘‘
فان ڈیر لاین نے لکھا کہ وہ رابرٹ فیتسو کی جلد صحت یابی اور ان کے اور ان کے اہل خانہ کے لیے دعا گو ہیں۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ حملہ آور کون ہے اور اس نے وزیر اعظم فیتسو پر حملہ کیوں کیا۔
م م / ش ر (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔