سماجی انضمام کے لیے مزید سرمایہ کاری کی جانی چاہیے، شوئبلے
23 ستمبر 2018
جرمن پارلیمان کے صدر وولف گانگ شوئبلے کے مطابق ’جرمنی سے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو ملک بدر کرنا غیر حقیقی عمل ہو گا، لہٰذا پناہ گزینوں کو جرمن معاشرے میں ضم کرنے کے لیے مزید سرمایہ کاری کی جانی چاہیے۔‘
اشتہار
جرمن پارلیمان کے صدر وولف گانگ شوئبلے نے پناہ گزینوں کی جرمنی سے ملک بدری کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم پر یہ امر واضح ہونا چاہیے کہ انفرادی سطح پر کسی بھی پناہ گزین کو ملک بدر کرنا کتنا مشکل عمل ہے۔‘‘ جرمن اخبار ’ویلٹ آم زونٹاگ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے شوئبلے نے مزید کہا، ’’اسی بناء پر ہمیں یہ امید نہیں لگانی چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو واپس بھیج سکیں گے‘‘۔ ان کے بقول پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو ملک بدر کرنے کے بجائے انہیں معاشرے میں ضم کیے جانے پر توجہ دینی چاہیے۔
مہاجرین کے حوالے سے پالیسیاں نہ صرف موجودہ جرمن حکومت کی اتحادی جماعتوں کے درمیان تنازعے کی ایک وجہ ہیں بلکہ یورپی یونین کی سطح پر بھی اکثر تناؤ کی وجہ یہی موضوع ہوتا ہے۔
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton
12 تصاویر1 | 12
جرمن سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے یورپی کمشنر گُنٹر اوٹنگر نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں الجھنے کے بجائے یورپی سطح پر اتفاق رائے کے لیے بھرپور کوششیں کریں، ’’برسلز میں اپنے یورپی ساتھیوں کو یہ سمجھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ جرمنی کی ’وسیع تر مخلوط حکومت‘ کیوں اکثر تنازعات کا شکار رہتی ہے، خاص طور پر ایسے معاملات پر جو اتنے اہم بھی نہیں ہوتے۔‘‘ اوٹنگر نے ان خیالات کا اظہار جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ہانس گیورگ ماسن کے موضوع پر جاری بحث کے تناظر میں کیا۔
’مشرقی یا مغربی جرمنی کا مسئلہ نہیں ہے۔‘
جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں انتہائی دائیں بازو کے حلقوں کی جانب سے غیر ملکیوں اور پناہ گزینوں کے خلاف جذبات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ وفاقی پارلیمان کے صدر نے جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل اور کیمنٹس میں تناؤ کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ’جرمنی کے مشرقی یا مغربی حصے کا مسئلہ نہیں ہے۔‘ ان کے مطابق ’’اس طرح کی سوچ کو پروان چڑھانے والوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق مغربی جرمنی سے ہے۔‘‘
اسی کے ساتھ شوئبلے نے جرمن ریاست رائن لینڈ پلاٹنیٹ کے شہر کانڈل میں ایک افغان تارک وطن کے ہاتھوں قتل ہونے والی جرمن لڑکی ’میاوی‘ کے واقع کا ذکر کیا۔ کانڈل میں اس واقع کے بعد گزشتہ برس دسمبر سے دائیں بازو کی جانب سے مہاجرین مخالف مظاہروں میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا۔ شوئبلے کے مطابق ’کوئتھن اورکانڈل میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘
ع آ/ ع ا (نیوز ایجنسیاں)
اہلیانِ کیمنٹس کی جانب سے نسل پرست مظاہرین کی مذمت