’ناکافی‘ معاہدہ منظور، عالمی سطح پر ملا جلا رد عمل
14 نومبر 2021
گلاسگو ميں عالمی ماحولياتی کانفرنس ميں تحفظ ماحول کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ معاہدے کے مسودے ميں بھارتی ايما پر کی گئی تبديلی کے تناظر ميں اس معاہدے کو 'سمجھوتوں پر مبنی اور ناکافی‘ قرار ديا جا رہا ہے۔
اشتہار
اسکاٹ لينڈ کے شہر گلاسگو ميں ہفتے تيرہ نومبر کی رات کو اختتام پذير ہونے والی عالمی ماحولياتی کانفرنس COP26 ميں تقريباً دو سو ملکوں نے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی۔ معاہدے کے مسودے ميں دنيا کے درجہ حرارت کو محدود رکھنے سے متعلق پہلے سے طے کردہ ہدف کا تعاقب جاری رکھنے کا تو کہا گيا ہے مگر کوئلے سے توانائی کے حصول سے متعلق بھارت کی جانب سے کردہ تبديلی پر کافی تنقيد جاری ہے۔ کوئلے کا استعمال ضرر رساں گيسوں کے اخراج کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ شرکاء اسے ختم کرنا چاہتے تھی ليکن آخری لمحات ميں بھارت نے معاہدے کے مسودے ميں ترميم کرائی اور اسے 'کم کرنے‘ کا ہدف مقرر کرايا۔
مبصرين کی رائے ميں گو کہ شريک ملکوں نے ايک معاہدے پر دستخط کر ديے ہيں مگر کئی اہم معاملات اور مسائل غور طلب ہيں۔ اکثريت کی رائے ہے کہ تازہ معاہدہ دنيا کو کسی ماحولياتی سانحے سے بچانے کے ليے ناکافی ہے۔ ملکوں نے ذاتی و قومی سطح کے مفادات اور سياسی و اقتصادی امور کو دنيا اور ماحول کے وسيع تر مفاد پر ترجيح دی۔ يوں وہ اہداف نہ طے کيے جا سکے، جن سے زمين کے ماحول کا تحفظ ممکن ہو سکے۔
گلاسکو کی اس کانفرنس سے قبل اقوام متحدہ نے کاميابی کے ليے تين چيزوں کی نشاندہی کی تھی، جن ميں سے ايک بھی حاصل نہ کی جا سکی۔ اقوام متحدہ چاہتی تھی کہ 2030ء تک کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج ميں پچاس فيصد کمی پر اتفاق ہو، امير ملک غريب ملکوں کو سالانہ ايک سو بلين ڈالر ادا کريں اور يہ کہ ان رقوم کا نصف حصہ، ترقی پذير ملکوں کو موسمياتی تبديليوں سے نمٹنے ميں مدد کے ليے ديا جائے۔
عالمی رد عمل
اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل انٹونيو گوٹيرش نے کسی موسمياتی سانحے سے خبردار کيا ہے۔ ہفتے کو معاہدے کے اعلان کے بعد انہوں نے اپنا ايک بيان جاری کيا اور ان سمجھوتوں پر روشنی ڈالی، جو معاہدے تک پہنچنے کے ليے کيے گئے۔ انہوں نے کہا کہ 'ڈيل ايک اہم قدم تو ہے مگر يہ کافی نہيں‘۔ گوٹيرش کے مطابق، ''ہماری دنيا ايک دھاگے سے لٹک رہی ہے۔ موسمياتی يا ماحولياتی سانحے کا خطرہ اب بھی حقيقی ہے۔‘‘
اشتہار
تحفظ ماحول کے ليے سرگرم معروف سويڈش رضاکار گريٹا تھونبرگ نے اسے بيکار قرار ديا اور کہا کہ اصل کام کانفرنس کے حال سے باہر ہو رہا ہے۔
برطانوی وزير اعظم بورس جانسن نے کہا کہ مستقبل قريب ميں بہت کچھ کيا جانا باقی ہے۔ ''البتہ اس ضمن ميں تازہ معاہدہ ايک بڑی پيش رفت ہے۔ اہم يہ ہے کہ ہم نے کوئلے کے استعمال کو کم کرنے کے ليے پہلی مرتبہ عالمی سطح پر سمجھوتہ کيا اور درجہ حرارت ميں اضافے کو ڈيڑھ ڈگری تک محدود رکھنے کے ليے ايک روڈ ميپ تک پہنچے۔‘‘
يورپی کميشن نے سمجھوتے کو ايک موقع سے تعبير کيا۔ کميشن کی صدر اروزلا فان ڈيئر لائن کے بقول بڑے اہداف حاصل نہ ہو سکے مگر شرکاء نے ان تک پہنچنے کے ليے يقين دہانياں کرائی ہيں۔
دنیا کے ان اہم ترین جنگلات کو تحفظ کی اشد ضرورت
گلاسگو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں سو سے زائد ممالک نے سن دو ہزار تیس تک جنگلات کی کٹائی روکنے کا عہد کیا۔ جانیے اس پکچر گیلری میں کہ دنیا کے اہم ترین جنگلات کتنے محفوظ ہیں؟
تصویر: Zoonar/picture alliance
ایمیزون برساتی جنگل
ایمیزون برساتی جنگل ایک اہم ’کاربن سِنک‘ (ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم کرنے والا) اور دنیا کے سب سے زیادہ حیاتیاتی متنوع مقامات میں سے ایک ہے۔ لیکن کئی دہائیوں سے جاری درختوں کی کٹائی اور کھیتی باڑی نے اس جنگل کے تقریباً 20 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کو ختم کر دیا ہے۔ جو جنگل باقی بچا ہے، اس کا صرف نصف حصہ ہی محفوظ علاقہ ہے۔
تصویر: Florence Goisnard/AFP/Getty Images
ٹائیگا جنگل
یہ سب آرکٹک شمالی جنگل بنیادی طور پر صنوبر کے درختوں پر مشتمل ہے۔ یہ اسکینڈے نیویا اور روس کے بڑے حصوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ٹائیگا کا تحفظ ہر ملک میں مختلف ہے۔ مثال کے طور پر مشرقی سائبیریا میں سوویت دور کے سخت حفاظتی قوانین نے بڑی حد تک اسے برقرار رکھا لیکن بعد ازاں روس میں معاشی بدحالی نے درختوں کی کٹائی کو تباہ کن حد تک فروغ دیا۔
تصویر: Sergi Reboredo/picture alliance
کینیڈا کے بوریل جنگلات
شمالی امریکا کے سب آرکٹک ٹائیگا کو بوریل جنگلات کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ الاسکا سے کیوبیک تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کینیڈا کے تقریباً 94 فیصد بوریل جنگلات عوامی زمین پر ہیں اور یہ حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ ان کا صرف آٹھ فیصد حصہ محفوظ ہے۔ کینیڈا دنیا میں کاغذی مصنوعات کے اہم برآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ وہاں سالانہ تقریباً 4,000 مربع کلومیٹر پر کھڑے جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: Jon Reaves/robertharding/picture alliance
کانگو بیسن برساتی جنگل
دریائے کانگو دنیا کے سب سے قدیم اور گھنے برساتی جنگلات میں سے ایک کی پرورش کرتا ہے۔ یہ جنگل افریقہ کے چند مشہور ترین جانوروں کا مسکن بھی ہے، جن میں گوریلا، ہاتھی اور چمپینزی شامل ہیں۔ لیکن یہ خطہ تیل، سونے، ہیروں اور دیگر قیمتی معدنیات سے بھی مالا مال ہے۔ کان کنی اور غیرقانونی شکار نے جنگلات کی تیزی سے کٹائی کو ہوا دی ہے۔ درختوں کی کٹائی کی شرح یہی رہی تو سن 2100ء تک یہ جنگل بالکل ختم ہو جائے گا۔
یہ 140 ملین سال پرانا ماحولیاتی خطہ ہے، جو برونائی، انڈونیشیا اور ملائیشیا میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ خطرے سے دوچار سینکڑوں جانداروں کا مسکن ہے۔ لکڑی، پام آئل، ربڑ اور معدنیات کے لیے یہاں کے برساتی جنگلات کے بڑے حصے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں نے جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کو بھی فروغ دیا ہے کیونکہ کاٹے گئے جنگلات نے شکاریوں کی دور دراز علاقوں تک رسائی بھی ممکن بنا دی ہے۔
تصویر: J. Eaton/AGAMI/blickwinkel/picture alliance
پریموری جنگل
روس کے مشرق بعید میں واقع یہ جنگل سائبیرین ٹائیگر اور معدومیت کے خطرے سے دوچار درجنوں دیگر اقسام کے جانداروں کی پناہ گاہ ہے۔ بحرالکاہل کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ جنگل گرمیوں میں برساتی حالات اور سردیوں میں آرکٹک جیسا موسم پیدا کرتا ہے۔ دور دراز ہونے کے ساتھ ساتھ تحفظ کی کوششوں نے اسے بڑی حد تک قائم تو رکھا ہوا ہے لیکن اب درختوں کا تجارتی بنیادوں پر کاٹا جانا اس کے لیے ایک بڑھتا ہوا خطرہ بن گیا ہے۔
تصویر: Zaruba Ondrej/dpa/CTK/picture alliance
والڈیوین برساتی جنگلات
یہ جنگلاتی علاقہ سلسلہ کوہ انڈیز کی مغربی ڈھلوان اور بحر الکاہل کے درمیان زمین کی ایک تنگ پٹی پر پھیلا ہوا ہے۔ بڑے پیمانے پر کٹائی سے مقامی درختوں کو خطرہ لاحق ہے۔ مقامی درختوں کی جگہ تیزی سے بڑھنے والے پائن اور یوکلپٹس کے درخت لگائے جا رہے ہیں، جو خطے میں موجود حیاتیاتی تنوع کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔
تصویر: Kevin Schafer/NHPA/photoshot/picture alliance