سمندری راستے سے برطانیہ پہنچنے والے مہاجرین میں اضافہ
15 اگست 2020
برطانیہ کو حالیہ ہفتوں کے دوران سمندر کے ذریعے وہاں پہنچنے والے مہاجرین میں اضافے کا سامنا ہے۔ یہ مہاجرین شمالی فرانس سے برطانیہ پہنچنے کے لیے کسی قسم کے خطرے کو خاطر میں نہیں لاتے۔
اشتہار
رواں برس جنوری سے اب تک 4000 سے زائد سیاسی پناہ کے متلاشی شمالی فرانس میں واقع بوسیدہ اور گندے کیمپوں کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ ان کے بارے میں صرف اتنی معلومات دستیاب ہے کہ ان کی حتمی منزل برطانیہ ہے۔ ایسی مصدقہ معلومات دستیاب نہیں کہ آیا یہ چار ہزار افراد برطانوی سرزمین تک پہنچ پائے ہیں۔
ایسا بھی بتایا گیا ہے کہ ان تارکین وطن کی پوری کوشش ہے کہ وہ کسی طرح انگلینڈ کے جنوبی ساحل تک پہنچ جائیں جس کے لیے مشکل اور خطرناک سمندری سفر کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب ان کا برطانیہ میں پہنچ کر بھی مستقبل روشن ہونے کا کوئی امکان بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔
برطانیہ پہنچنے کی خواہش رکھنے والا ایک ایسا ہی تارک وطن گل ولی پاسارلے بھی ہے جس کا کہنا ہے کہ جب وہ شمالی فرانس کے ساحلی مقام کالَے پہنچا تھا تو اس کو امید ہو گئی تھی کہ ایک دن وہ برطانیہ پہنچ جائے گا۔ اس کے بہتر مستقبل کی یہ امید جلد ہی غیر یقینی حالات کا شکار ہو کر ناامیدی میں تبدیل ہو گئی۔
گل ولی پاسارلے کا کہنا ہے کہ کالَے پہنچ کر اس کو انتہائی غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے کئی مرتبہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے پولیس اسٹیشن کے ایک کمرے میں گزارے۔ اس نے تاسف سے کہا کہ کالَے میں محسوس ہوا کہ اس جیسے تارکین وطن کی وہاں کوئی عزت اور حیثیت نہیں۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے گل ولی پاسارلے پندرہ سال قبل ملکی جنگی حالات کے سبب وہاں سے نکلے تھے۔
گل ولی پاسارلے مختلف انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا تنہا دو براعظموں کو عبور کرتا اس امید کے ساتھ کالَے پہنچا کہ ایک دن وہ برطانیہ میں اپنے بھائی کے پاس پہنچ جائے گا۔ اس طویل تھکا دینے والے سفر کے دوران اسے حراستی مراکز کے ساتھ ساتھ اسمگلروں کے ٹارچر کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس کا سفر کالَے سے آگے بڑھ نہیں پایا مگر فرانس میں اب گل ولی پاسارلے ایک سرگرم کارکن بن چکا ہے۔
افغان شہری پاسارلے سمندر کے خطرناک سفر سے گبھراتا رہا لیکن رواں برس چار ہزار افراد مختلف طریقوں سے انگلینڈ تک پہنچنے کا سفر اختیار کر چکے ہیں۔ ان لوگوں نے کمزور اور چھوٹی کشتیوں پر سوار ہونے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان میں کئی نابالغ بھی شامل تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سن 2015 کے مہاجرین کے بحران کے بعد سے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین نے برطانیہ کا سفر اختیار نہیں کیا تھا۔ صرف رواں ماہ اگست میں اب تک ساڑھے چھ سو مہاجرین برطانوی سرزمین پر قدم رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ چھ اگست کو دو سو پینتیس افراد برطانیہ پہنچے، جو حالیہ برسوں میں ایک ریکارڈ تعداد ہے۔
کالَے سے جنوبی انگلینڈ میں داخل ہونا مہاجرین کے طویل سفر کی آخری منزل ہوتی ہے۔ یہ مہاجرین تقریباً پانچ ہزار کلو میٹر کا سفر مکمل کرتے ہیں۔ اس فرانسیسی ساحلی شہر میں آج بھی دو ہزار کے لگ بھگ مہاجرین برطانیہ پہنچنے کا خواب لے کر خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں پہنچنے والے افراد کی تعداد میں سست انداز میں اضافہ بھی جاری ہے۔
ہر ہفتے سینکڑوں مہاجرین سمندر کو عبور کرنے کا سفر شروع کرتے ہیں۔ اس سفر کے لیے انسانی اسمگلر ان پریشان حال تارکین وطن سے ہزاروں ڈالر میں سودے طے کرتے ہیں۔ ایک برطانوی امدادی تنظیم 'مِسنگ پیپل‘ سے منسلک خاتون جین ہنٹر کا کہنا ہے کہ کئی برطانیہ پہنچنے والے نوجوان اور نا بالغ افراد کو منزل تک پہنچانے کا جھانسہ دے کر استحصالی گروپس اپنے کنٹرول میں لے لیتے ہیں۔ برطانوی حکومت انسانی اسمگلرز اور منظم جرائم پیشہ گروپوں کے خلاف خفیہ انداز میں کارروائی شروع کرنے کی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے۔
کس ملک کے کتنے شہری بیرون ملک آباد ہیں؟
اقوام متحدہ کے مطابق سن 2020 تک اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 272 ملین ہو چکی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے سب سے زیادہ مہاجرت کس ملک کے شہریوں نے اختیار کی۔
تصویر: AFP
1۔ بھارت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز تک قریب ایک کروڑ اسی لاکھ (18 ملین) بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ زیادہ تر بھارتی تارکین وطن امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں ہیں۔ سن 2000 میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد آٹھ ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
2۔ میکسیکو
جنوبی امریکی ملک میکسیکو، قریب ایک کروڑ بیس لاکھ (12 ملین) بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی 90 فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jaramillo Castro
3۔ چین
چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2019 تک ایک کروڑ دس لاکھ (11 ملین) سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چین تیسرے نمبر پر ہے۔ چینی تارکین وطن کی بڑی تعداد امریکا، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا میں آباد ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد 44 لاکھ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. J. Brown
4۔ روس
چوتھے نمبر پر روس ہے جس کے ایک کروڑ (10.5 ملین) سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ روسی تارکین وطن جرمنی، امریکا اور یورپی ممالک کے علاوہ سابق سوویت ریاستوں میں مقیم ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Zentrum Gleiche Kinder
5۔ شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے 80 لاکھ شہری دوسرے ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں۔ شام سن 1990 میں اس عالمی درجہ بندی میں 26 ویں نمبر پر تھا تاہم سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔ شامی مہاجرین کی اکثریت ترکی، اردن اور لبنان جیسے پڑوسی ملکوں میں ہے تاہم جرمنی سمیت کئی دیگر یورپی ممالک میں بھی شامی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
6۔ بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش اقوام متحدہ کی تیار کردہ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق قریب 80 لاکھ بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔ بنگالی شہری بھارت اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن امریکا، برطانیہ اور خلیجی ممالک کا رخ کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔
تصویر: dapd
7۔ پاکستان
70 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ زیادہ تر پاکستانی خلیجی ممالک، برطانیہ اور امریکا میں موجود ہیں۔ سن 1990 میں 34 لاکھ جب کہ سن 2005 کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم سن 2007 کے بعد سے پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تصویر: Iftikhar Ali
8۔ یوکرائن
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں یوکرائن اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرائنی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرائن کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے آغاز تک چھ ملین یوکرائنی شہری بیرون ملک آباد تھے۔
تصویر: Picture alliance/dpa/Matytsin Valeriy
9۔ فلپائن
57 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ سن 2000 میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائنی شہریوں کی تعداد 30 لاکھ تھی۔ گزشتہ 17 برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائنی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ F. R. Malasig
10۔ افغانستان
افغانستان 50 لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں دسویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6.7 ملین شہری پاکستان، ایران اور دیگر ممالک میں مقیم تھے۔ تاہم سن 1995 تک 22 لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔