سمندری پانی کو میٹھے پانی میں بدلنے کے کامیاب منصوبے
26 اگست 2011میٹھے پانی کے زیادہ تر ذخائر گلیشئرز میں یا پھر زمین کے اندر پنہاں ہیں۔ ماہرین کھاری یا نمکین سمندری پانی کو پینے کے لیے موزوں میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے نت نئے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران نمکین سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے شعبے میں بے حد ترقی ہوئی ہے۔
اس شعبے میں سب سے آگے ہیں اسپین، جہاں کئی عشروں سے سمندری پانی سے نمک کو الگ کیا جا رہا ہے یا پھر سنگاپور، جو پانی کے سلسلے میں اپنے ہمسایہ ملک ملائیشیا پر انحصار کو کم کرنے کا خواہاں ہے۔ اسرائیل میں بھی ایسے کئی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ سالانہ 500 ملین کیوبک میٹر میٹھے پانی کا حصول اسرائیل کا ہدف ہے۔
سن 2016ء تک دُنیا بھر میں پانی سے نمک کو الگ کرتے ہوئے حاصل کیے گئے میٹھے پانی کی مجموعی سالانہ مقدار 38 ارب کیوبک میٹر ہو جائے گی۔ یہ مقدار 2008ء کے مقابلے میں دگنی بنتی ہے۔ بظاہر یہ بڑے حوصلہ افزا اعداد و شمار ہیں تاہم Yale یونیورسٹی کے ماحولیاتی ٹیکنالوجی کے پروفیسر Menachem Elimelech کہتے ہیں:’’اصولی طور پر سمندری پانی سے نمک کو الگ کرتے ہوئے لا محدود مقدار میں میٹھا پانی حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ سمندر وسیع و عریض ہیں۔ اُنہیں کوئی نقصان پہنچائے بغیر وہاں سے بہت بڑی مقدار میں پانی لیا جا سکتا ہے۔ دریاؤں اور جھیلوں کے میٹھے پانی کے ماحولیاتی نظاموں میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ بڑا مسئلہ لیکن یہ ہے کہ سمندری پانی کو نمک سے پاک کرنے پر اُس سے کہیں زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے، جتنی کہ دریاؤں یا جھیلوں کے پانی کو قابل استعمال بنانے میں لگتی ہے۔‘‘
سمندری پانی سے نمک کو الگ کرنے کے تمام مراکز میں طریقہ ایک ہی استعمال ہوتا ہے اور وہ یہ کہ پانی کو انتہائی زیادہ دباؤ کے تحت ایک انتہائی باریک جالی میں سے گزارا جاتا ہے۔ یہ جالی اتنی باریک ہوتی ہے کہ اس میں سے پانی کے مالیکیول تو گزر سکتے ہیں لیکن نمک کے قدرے بڑے مالیکیول نہیں گزر پاتے۔ لیکن ایک کیوبک میٹر یعنی ایک ہزار لیٹر میٹھے پانی کے حصول کے لیے تین تا چار کلو واٹ فی گھنٹہ بجلی خرچ ہو جاتی ہے۔ اس طرح دریائی یا زیر زمین پانی کو پینے کے قابل بنانے پر خرچ ہونے والی بجلی کے مقابلے میں سمندری پانی کو نمک سے پاک کرنے کے باعث تین گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ گویا نمکین سمندری پانی کو میٹھے پانی میں بدلنا ممکن تو ہے لیکن ابھی اس کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقے ماحول دوست نہیں ہیں۔
رپورٹ: میڈیلن امبیرگر / امجد علی
ادارت: مقبول ملک