سمندر کی تہہ میں مردہ ماں کے سینے سے چمٹے بچے کی لاش
19 اکتوبر 2019
اطالوی غوطہ خور ایک کشتی کی غرقابی کے بعد لاپتا ہونے والے پناہ گزینوں کی تلاش میں سمندر کی تہہ میں اترے تو ایک منظر نے انہیں رلا دیا۔ زیر آب ایک کم سن بچہ اپنی موت کے دس روز بعد بھی اپنی ماں کے سینے سے چمٹا ہوا تھا۔
اشتہار
ایک بے نام ایلان کردی
02:18
گزشتہ ہفتے تیونس سے اٹلی کی جانب محو سفر پناہ گزینوں کی ایک کشتی بحیرہ روم میں ڈوب گئی تھی۔ اس کشتی میں پچاس سے زائد افراد سوار تھے، جن میں سے بائیس کو ریسکیو کر لیا گیا تھا۔ دیگر اٹھائیس افراد سمندر میں لاپتا ہو گئے تھے۔
اطالوی کوسٹ گارڈز کی ٹیم نے اس کشتی کی غرقابی کے مقام کے قریب ان لاپتا افراد کی تلاش کا کام شروع کیا۔ لکڑی کی بنی یہ کشتی سمندر کی تہہ میں ساٹھ میٹر (قریب دو سو فٹ) کی گہرائی میں ایک ویڈیو روبوٹ کے ذریعے دیکھ لی گئی تھی۔
تہہ آب الٹی ہوئی کشتی کے نیچے ممکنہ طور پر کئی پناہ گزینوں کی لاشیں موجود تھیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ اس کے بعد لاشیں نکالنے کے لیے اطالوی ساحلی محافظوں کی ایک ٹیم کے غوطہ خور سمندر میں اترے۔
غوطہ خوروں کے مطابق کشتی کے نیچے سے لاشیں نکالتے ہوئے ایک منظر نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ دس روز قبل ڈوب کر ہلاک ہو جانے والے ان افراد میں سے ایک خاتون نے اپنے ایک نومولود بچے کو بھینچ کر اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔
اطالوی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے غوطہ خوروں کی ٹیم کے سربراہ روڈولفو رائیٹیری نے بتایا، ''سمندر کی تہہ میں ممکنہ طور پر اپنی ماں کے سینے سے چمٹے اس چھوٹے سے بچے کی لاش دیکھ کر میرا دل ٹوٹ گیا۔‘‘
ایلان کردی کی یاد
غوطہ خوروں نے سمندر کی تہہ میں اس بچے کی لاش ملنے کا جو منظر بیان کیا، اس نے ایک مرتبہ پھر سے ایلان کردی کی یاد تازہ کر دی ہے۔ سن 2015 میں کم سن ایلان کردی کی لاش ترکی کے ایک ساحل سے ملی تھی۔
پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں: فیصلے کن کے حق میں؟
رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمن حکام نے پندرہ ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلوں پر فیصلے سنائے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس ملک کے کتنے پناہ گزینوں کی اپیلیں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
1۔ افغان مہاجرین
رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1647 افغان مہاجرین کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے۔ ان میں سے بطور مہاجر تسلیم، ثانوی تحفظ کی فراہمی یا ملک بدری پر پابندی کے درجوں میں فیصلے کرتے ہوئے مجموعی طور پر 440 افغان شہریوں کو جرمنی میں قیام کی اجازت دی گئی۔ یوں افغان تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح قریب ستائیس فیصد رہی۔
تصویر: DW/M. Hassani
2۔ عراقی مہاجرین
بی اے ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکام نے گیارہ سو عراقی مہاجرین کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے اور ایک سو چودہ عراقیوں کو مختلف درجوں کے تحت جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔ یوں عراقی مہاجرین کی کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld
3۔ روسی تارکین وطن
روس سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلیں بھی نمٹائی گئیں اور کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ کم رہی۔ صرف تیس روسی شہریوں کو مہاجر تسلیم کیا گیا جب کہ مجموعی طور پر ایک سو چار روسی شہریوں کو جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
4۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں شامی مہاجرین کی اکثریت کو عموما ابتدائی فیصلوں ہی میں پناہ دے دی جاتی ہے۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بی اے ایم ایف کے حکام نے پناہ کے مسترد شامی درخواست گزاروں کی قریب ایک ہزار درخواستوں پر فیصلے کیے جن میں سے قریب پیتنالیس فیصد منظور کر لی گئیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/P. Giannokouris
5۔ سربیا کے تارکین وطن
مشرقی یورپی ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے 933 تارکین وطن کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف پانچ منظور کی گئیں۔ یوں کامیاب اپیلوں کی شرح 0.5 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
6۔ پاکستانی تارکین وطن
اسی عرصے کے دوران جرمن حکام نے 721 پاکستانی تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے۔ ان میں سے چودہ منظور کی گئیں اور اپیلوں کی کامیابی کی شرح قریب دو فیصد رہی۔ آٹھ پاکستانیوں کو بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دی گئی جب کہ تین کو ’ثانوی تحفظ‘ فراہم کرتے ہوئے جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: DW/I. Aftab
7۔ مقدونیہ کے تارکین وطن
مشرقی یورپ ہی کے ملک مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے 665 تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے سنائے گئے جن میں سے صرف 9 منظور کی گئیں۔
تصویر: DW/E. Milosevska
8۔ نائجرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے چھ سو تارکین وطن کی اپیلیں نمٹائی گئیں جن میں کامیاب درخواستوں کی شرح تیرہ فیصد رہی۔
تصویر: A.T. Schaefer
9۔ البانیا کے تارکین وطن
ایک اور یورپی ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے 579 تارکین وطن کی ثانوی درخواستوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف نو افراد کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
10۔ ایرانی تارکین وطن
جنوری سے جون کے اواخر تک 504 ایرانی شہریوں کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے گئے جن میں سے 52 کو بطور مہاجر تسلیم کیا گیا، چار ایرانی شہریوں کو ثانوی تحفظ دیا گیا جب کہ انیس کی ملک بدری پر پابندی عائد کرتے ہوئے جرمنی رہنے کی اجازت دی گئی۔ یوں ایرانی تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح پندرہ فیصد سے زائد رہی۔
ایلان کردی کی لاش کی تصویر نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور یہ تصویر بڑی تعداد یورپ کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں اور ان کے باعث پیدا ہونے والے بحران کی علامت بن گئی تھی۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد سے بحیرہ ایجیئن کے سمندری راستوں کے ذریعے ترکی سے یونان کا رخ کرنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد مسلسل کم ہوئی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں کے دوران سمندری راستوں کے ذریعے شمالی افریقہ سے اٹلی اور اسپین کا رخ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
لامپےڈوسا ایک اطالوی جزیرہ ہے اور زیادہ تر تارکین وطن شمالی افریقی ممالک کے ساحلوں سے اسی جزیرے کی طرف سفر کرتے ہیں۔ یہ سمندری راستے طویل اور انتہائی خطرناک تصور کیے جاتے ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق صرف رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران ہی مزید 994 افراد بحیرہ روم کے پانیوں میں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس واقعے کے بعد بھی لامپےڈوسا میں پناہ کے متلاشی افراد کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور جمعہ اٹھارہ اکتوبر کے روز بھی سولہ افراد ایک چھوٹی سے کشتی کے ذریعے بحیرہ روم کا طویل سفر کر کے لامپےڈوسا پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق اس برس اب تک پناہ کے متلاشی 7939 افراد مختلف سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی پہنچ چکے ہیں۔
ش ح / م م (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔