سندھ اور بلوچستان میں ’مرسی کور‘ کے دفاتر بند
15 جون 2010اس ادارے نے یہ فیصلہ اپنے ایک مقامی ڈرائیور کے اغوا اور بعد ازاں اس کے قتل کی ویڈیو جاری کئے جانے کے بعد کیا۔
اس امریکی امدادی ادارے نے منگل کو جاری کئے گئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سیکیورٹی کے شدید تحفظات کی وجہ سےان دونوں پاکستانی صوبوں میں ’مرسی کور‘ کے جملہ دفاترعارضی طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔ اس ادارے نے یہ وضاحت نہیں کہ بلوچستان اور سندھ میں اس کی امدادی کارروائیاں دوبارہ کب شروع کی جائیں گی۔
رواں سال فروری میں اس تنظیم کے تین امدادی کارکنوں اور ایک ڈرائیور کو بلوچستان کے علاقے قلعہ سیف اللہ سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ ’مرسی کور‘ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے صوبہ بلوچستان میں اپنے چالیس جبکہ سندھ میں چار دفاتر بند کیے ہیں۔
ان دفاتر کو اس واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی بند کر دیا گیا، جب اغوا کاروں نے ایک ایسی ویڈیو جاری کی، جس میں ’مرسی کور‘ کے اغوا شدہ مقامی ڈرئیور کا قتل ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس پاکستانی ڈرائیور کا نام حبیب اللہ تھا اور اس کی عمر 52 سال تھی۔
صوبہ بلوچستان میں اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر سعیداللہ خان نے خبر رساں ادارے AFP کو بتایا کہ حکومت انہیں اور ان کے ساتھیوں کو مناسب سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اوران کے اغوا شدہ ساتھیوں کو رہا بھی نہیں کروا سکی۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں اس تنظیم کے لئے بلوچستان اور سندھ میں اپنا کام جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔
ڈاکٹر خان نے مزید کہا کہ ان کے تین ساتھی ابھی تک لاپتہ ہیں اور اغوا کار ان کی رہائی کے لئے سو ملین روپے تاوان مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے اغوا اور قتل کی اس واردات کی شدید مذمت کی۔ کوئٹہ میں ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے بقول اغوا کاروں کا تعلق جرائم پیشہ افراد کے ایک گروہ سے ہے۔
Mercy Corps نامی امریکی تنظیم پاکستان میں سن 1986ء سے کام کر رہی ہے۔ اس دوران اس ادارے نے صحت، تعلیم ، اقتصادی ترقی اور ہنگامی صورتحال کے دوران فوری امداد کی فراہمی کے سلسلے میں قابل ذکر خدمات سر انجام دیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک