1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ میں بے قابو لمپی سکن ڈیزیز کتنی خطرناک ہے؟

1 مئی 2022

محکمۂ لائیوسٹاک سندھ کے مطابق اپریل کے آخری ہفتے تک صرف سندھ میں 36 ہزار سے زائد گائے اور بھینسیں لمپی سکن ڈیسز سے متاثر ہوئیں اور 428 ہلاک ہو چکی ہیں۔ ویکسینیشن اگر جلد از جلد مکمل نہ ہوئی تو صورٹحال خراب ہو سکتی ہے۔

Pakistan Eine LSDV-infizierte Kuh aus dem ländlichen Sindh mit Knoten im Körper
تصویر: Saadeqa Khan

2022ء کے آغاز سے لمپی سکن ڈیزیز وائرس سندھ اور پنجاب کے متعدد اضلاع میں پھیل چکا ہے مگر اس کی شدت کراچی، ٹھٹہ اور ملحقہ علاقوں میں زیادہ ہے۔ یہ علاقے فی الوقت شدید گرمی کی لہر کی لپیٹ میں ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق گرم و مرطوب آب و ہوا میں لمپی سکن  ڈیزیز ایسی جگہوں پر بہت تیزی سے پھیلتی ہے، جہاں بڑی تعداد میں جانوروں کو ایک ہی جگہ پر باندھا جاتا ہے، جسے عموما "باڑا" کہا جاتا ہے۔

لمپی سکن ڈیزیز وائرس کیا ہے؟

محکمہ لائیو سٹاک سندھ سے وابستہ ڈاکٹر ایس سولنگی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ لمپی سکن ڈیزیز وائرس کا ڈی این اے دو لڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس کا تعلق کیپری پوکس وائرس جین سے ہے۔ جینیاتی لحاظ سے شیپ پوکس اور گوٹ پوکس سے تعلق رکھنے والی وائرس کی یہ فیملی گھروں یا ڈیری فارمنگ کے لیے پالے جانے والے جانوروں کو متاثر کرتی ہے۔

ڈاکٹر سولنگی کے مطابق لمپی سکن ڈیزیز سے پاکستان میں گائے، بھینس اور بیل متاثر ہوئے ہیں۔ تازہ ترین اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ صرف سندھ میں 36 ہزار سے زائد جانور اس وائرس کی لپیٹ میں آئے اور 428 اموات ہو چکی ہیں۔

لمپی سکن ڈیزز وائرس کیسے پھیلتا ہے؟ 

ڈاکٹر ایس سولنگی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یہ وائرس جانوروں کے تھوک کے علاوہ ان  کو کاٹنے یا ان پر چپک کر بیٹھنے والے مچھر اور مکھیوں  کی وجہ سے تیزی سے پھیلتا ہے۔ دنیا کے کئی خطوں میں لمپی سکن وائرس کو "انڈیمک" قرار دیا جا چکا ہے۔ اس وائرس کے  کراس بارڈر تیزی سے پھیلنے کی بڑی وجہ جانوروں اور اجناس کی ٹریڈنگ ہے۔

تصویر: AFP/R. Tabassum

 ڈاکٹر سولنگی  کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی خاص تحقیق سامنے نہیں آئی مگر غالب امکان یہی ہے کہ پاکستان میں یہ وائرس کسی ہمسایہ ملک سے جانوروں کی ٹریڈنگ کی وجہ سے منتقل ہوا۔ اور پھر متاثرہ جانوروں کو کاٹنے والے مچھر اور مکھیوں کے ذریعے یہ کراچی سے اندرون سندھ اور پنجاب تک پھیلتا چلا  گیا۔

پاکستان ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کراچی اور ملحقہ علاقوں میں فروری میں جب یہ وائرس پھیلا تو حکومت سے مطالبہ کیا گیا  کہ متاثرہ علاقوں سے جانوروں کی آمدو رفت کو روکا جائے اور نئے خریدے جانے والے جانوروں کو کم از کم 15 دن تک دیگر جانوروں سے علیحدہ باندھا جائے، ''مگر ہمارے ہاں باڑوں میں اتنی جگہ ہی نہیں ہوتی، جس کے باعث وائرس تیزی سے پھیلا۔ جون سے شروع ہونے والے مون سون سیزن سے اس کے پھیلاؤ میں مزید شدت کا امکان ہے کیونکہ بارشوں کے بعد گندگی، مچھر اور مکھیوں کی بہتات ہوتی ہے۔ 

لمپی سکن ڈیزیز کی علامات کیا ہیں؟

ڈاکٹر ایس سولنگی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ لمپی سکن ڈیزیز کی علامات میں بخار، جانور کی ناک کا بہنا، تھوک یا رال بہنا، بھوک نہ لگنا، جسم پر بڑے بڑے نوڈز یا دانوں کا ابھرنا اور دودھ کی مقدار کم ہونا شامل ہیں،''اگر دانے پورے جسم پر پھیل جائیں تو تیزی سے وزن کم ہونے کے ساتھ جانور کی موت واقع ہو جاتی ہے۔‘‘ 

 ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیری فارمنگ اور لائیو سٹاک  سے وابستہ افراد زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ اگرچہ سندھ میں تربیت یافتہ وٹرنٹی ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے مگر حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ ڈیری فارمرز کو اس حوالے سے مکمل آگاہی دی جائے۔

ویکسی نیشن کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟

سندھ بھر میں لمپی سکن ڈیزیز وائرس وائرل ہوتے ہی پاکستان ڈرگ ریگولیرٹی اتھارٹی نے دو ویسکین منظور کر کے ترکی اور اردن سے تقریبا 4 لاکھ ویکسین درآمد کیں اور فوری طور پر متاثرہ جانوروں کی ویکسی نیشن کا آغاز کیا گیا۔ چونکہ بڑی تعداد میں ویکسین کی درآمد مہنگی ہے لہذا کوشش کی جارہی ہے کہ آغا خان لیبارٹریز اور دیگر تحقیقی اداروں کی مدد سے ویکسین پاکستان میں تیار کر لی جائے، جس میں کم از کم 8 ماہ لگیں گے۔ 

کیا وائرس انسانوں میں منتقل ہوتا ہے؟

فروری 2022ء میں لمپی سکن ڈیزیز کے کیسز سامنے آتے ہی ہر طرف افواہوں کا بازار گرم تھا۔ کراچی اور ملحقہ علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے دودھ اور گائے کا گوشت کا استعمال ترک کر دیا تھا۔ جس کے بعد آغا خان یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف ایفیکشن پری وینشن نے ایک الرٹ جاری کر کے یہ واضح کیا کہ لمپی سکن وائرس انسانوں میں منتقل نہیں ہوتا۔ حفاظتی اقدامات  کو مد نظر رکھتے ہوئے دودھ اور گوشت کو اچھی طرح ابال اور پکا کر استعمال کیا جانا ضروری ہے۔

البتہ مصر کی ایک محققہ صائمہ احمد کمال کی تحقیق انسانوں میں لمپی وائرس کے کچھ کیسز کی نشاندہی کرتی ہے۔ صائمہ غزا اینیمل ہیلتھ ریسرچ سینٹر سے وابستہ ہیں۔ ان کی تحقیق کی مطابق 2019ء میں جب مصر میں لمپی سکن ڈیزیز  کی وبا پھیلی تو غزا، الفییوم اور الشرقیہ صوبوں میں انسانوں میں بھی لمپی سکن ڈیزیز کے متعدد کیسز نوٹ کیے گئے۔ ان میں اکثریت ڈیری فارمرز کی تھی، جو متاثرہ جانوروں کے ساتھ براہ راست تعلق میں تھے۔ ان ڈیری فارمرز کے جسم پر بڑے بڑے دانے اور پھوڑے نوٹ کیے گئے تھے۔ 

معاشی نقصان کتنا ہے؟

طبی ماہرین کے مطابق حیوانات میں لمپی سکن ڈیزیز کا پہلا کیس 1929ء میں زیمبیا میں سامنے آیا۔ جبکہ اس کی پہلی وبا 1988ء میں مصر میں پھیلی۔ افریقی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد 2013ء میں یہ سعودی عرب، اردن، شام، عراق، اسرائیل، ترکی میں، 2015ء میں روس، آرمینیا اور دیگر ہمسایہ ممالک میں پھیلا۔ جبکہ ایشیا میں اس کے کیسز 2020ء سے سامنے آنا شروع ہوئے۔  

ورلڈ آرگنائزیشن فار اینیمل ہیلتھ اس وائرس کو اپنی ہائی الرٹ لسٹ میں شامل کر چکا ہے کیونکہ متعدد ممالک کی معیشت پر اس وبا کے انتہائی منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔ پاکستان ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں فروری اور مارچ کے مہینوں میں اس حوالے سے بڑے پیمانے پر افواہیں پھیلائی گئیں جس سے ڈیری کی اشیاء اور  گوشت کی فروخت سے وابستہ افراد کا کاروبار 70 سے 60 فیصد گھٹ گیا۔ 

ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں جانوروں کے بیمار پڑنے اور ہلاکت سے ڈیری فارمرز ویسے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔ ویکسی نیشن کو جلد از جلد مکمل کرنے کے ساتھ کراس بارڈر جانوروں کی آمدورفت کو روکنا ضروری ہے۔ ورنہ اگلے چند ماہ میں صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، جس کا براہ راست اثر لائیو سٹاک کی صنعت پر پڑے گا۔  

لاچار جانوروں کا سہارا، عائشہ چندریگر

04:26

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں