1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ میں پروفیسر سومرو پر توہین مذہب کے الزام کے محرکات کیا؟

شاہ زیب جیلانی
11 جون 2020

خیرپور کی شاہ لطیف یونیورسٹی کے پروفیسر ساجد سومرو کو پولیس نے گزشتہ روز توہین مذہب کے الزام میں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا تھا۔

تصویر: DW

جمعرات گیارہ جون کو انہیں خیرپور کے فرسٹ سول جج کے سامنے پیش کیا گیا اور پولیس نے ان کے ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کی۔ پروفیسر ساجد سومرو کی طرف سے خیرپور ضلعی بار کے وکلاء نے اس کی بھرپور مخالفت کی، جس کے بعد عدالت نے ملزم کو خیرپور جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

خیرپور بار کے صدر سید جعفر شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پروفیسر ساجد سومرو اپنے خلاف لگائے گئے الزامات سے انکار کرتے ہیں۔ سید جعفر شاہ نے کہا، ''پروفیسر سومرو ساجد کے خلاف ایف آئی آر غیرقانونی ہے اور پولیس ان کے خلاف عدالت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ یہ ایک جھوٹا کیس ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ انہیں عدالت سے انصاف ملے گا۔‘‘

توہین مذہب کا الزام

پروفیسر سومرو کے خلاف رپورٹ اسسٹنٹ سب انسپکٹر غلام نبی ناریجو کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔ ایف آئی آر میں اس پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ اسے پتہ چلا کہ پروفیسر ساجد سومرو اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں اور وہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھی بات کرتے ہیں۔

ایف آئی آر میں ان پر توہین مذہب اور مذہبی انتشار پھیلانے سے متعلق چار دفعات کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ یہ الزامات ثابت ہونے  پر انہیں دس سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں اس قانون کا غلط اور بے جا استعمال روکنے کی خاطر پولیس کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ کوئی بھی ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے اس کے پاس صوبائی یا وفاقی حکومت کی اجازت ہو۔ وکلاء کے مطابق پروفیسر ساجد سومرو کے خلاف ایسی سنگین نوعیت کا کیس درج کرنے والا نچلی سطح کا ایک پولیس اہلکار ہے، جس کے پاس صوبائی یا وفاقی حکومت کا کوئی اجازت نامہ نہیں تھا۔

پروفیسر ساجد سومرو کون ہیں؟

ساجد سومرو کا تعلق بنیادی طور پر ٹُھل جیکب آباد سے ہے۔ وہ خیرپور کی شاہ لطیف یونیورسٹی کے شعبہ سندھی سے وابستہ ہیں۔ ساجد سومرو اپنے قوم پسندانہ اور صوفیانہ خیالات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ وہ چھ کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور سوشل میڈیا پر مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کے خلاف اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

سندھی ادبی حلقوں میں وہ اپنی گفتار اور انداز اظہار کے باعث متنازعہ بھی رہے ہیں۔ ناقدین کے مطابق ان میں تنقید برداشت کرنے کی کمی ہے اور ادبی موضوعات پر مباحثوں کے دوران وہ جلد ہی ذاتیات اور الزام تراشی پر اتر آتے ہیں۔

پس پردہ محرکات

پاکستان میں توہین مذہب کے الزام کا معاملہ ایک ایسا 'ڈیتھ ورانٹ‘ تصور کیا جاتا ہے، جو اب تک ساٹھ سے زائد افراد کے قتل کی وجہ بن چکا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ریاستی ادارے اور مذہبی حلقے اس قانون کو اپنے ناقدین کے خلاف استعمال کرتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ اس بارے میں بات کرنے سے کتراتے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اکثر واقعات میں سامنے کچھ اور ہوتا ہے اور پس پردہ محرکات کچھ اور۔ کئی کیسز میں توہین مذہب کا الزام لین دین کے معاملات، ذاتی اختلافات، زمین یا پانی کی وجہ سے تنازعے کی آڑ میں بھی لگا دیا جاتا ہے۔

ذاتی اختلافات

پروفیسر ساجد سومرو کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں بظاہر اس معاملے میں پھنسایا گیا ہے۔ خیرپور کی ایک سرکردہ ادبی شخصیت نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا  کہ پچھلے چند روز سے پروفیسر سومرو کے 'سندھی ادبی سنگت‘ نامی تنظیم سے وابستہ ایک اہم سرکاری اہلکار کے ساتھ اختلافات چل رہے تھے: ''دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا پر بد کلامی کی تھی اور دھمکیاں بھی دی تھیں۔ تاہم انہوں نے اس گرفتاری سے لاتعلقی ظاہر کی ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔‘‘

ریاستی ایما پر کارروائی؟

اکثر حلقوں کے خیال میں پروفیسر ساجد سومرو کو ان کے قوم پسندانہ اور سیکولر خیالات کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کا تعلق پچھلے دنوں سندھ کی ایک بزرگ قوم پرست ادبی شخصیت، عطا محمد بھنبھرو کی تدفین میں ان کی شرکت سے بھی ہو سکتا ہے۔

اس تدفین کے بعد مرحوم بھنبھرو کی قبر کو زنجیر میں جکڑ دیا گیا تھا۔ پروفیسر ساجد سومرو اور ان کے قوم پرست ساتھی اس عمل میں پیش پیش تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایسا مرحوم بھنبھرو کی وصیت کے مطابق کیا گیا کیونکہ ان افراد کے بقول عطا محمد بھنبھرو کو سندھ کی دھرتی کو 'غلامی‘ سے نجات نہ مل سکنے کا غم تھا۔

عطا محمد بھنبھرو کو ان کی ادبی خدمات کے باعث پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صدارتی ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا، تاہم انہوں نے نظریاتی  اختلافات کے باعث یہ اعزاز لینے سے انکار کر دیا تھا۔

سن دو ہزار پندرہ میں ان کے بیٹے راجہ داہر کو نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا تھا اور پھر کچھ عرصے بعد ایک سڑک سے راجہ داہر کی مسخ شدہ لاش ملی تھی۔ سندھ کے قوم پرست حلقوں کی طرف سے اس جبری گمشدگی اور قتل کا الزام پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں پر عائد کیا گیا تھا۔

تاہم گزشتہ روز عطا محمد بھنبھرو کے بڑے بیٹے عبدالحق بھنبھرو نے سوشل میڈیا پر ایک بیان بھی پڑھ کر سنایا تھا، جس میں انہوں نے اپنے والد کی تدفین کے حوالے سے پروفیسر ساجد سومرو کی طرف سے کی گئی کارروائی سے اپنی مکلمل لاتعلقی ظاہر کی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ ان کے والد نے اپنے خاندان کو ایسی کوئی وصیت نہیں کی تھی کہ ان کی قبر کو زنجیروں میں جکڑ دیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے والد تمام مذاہب کا احترام کرتے تھے اور پیغمبرِ اسلام ان کی پسندیدہ شخصیت تھے۔ عبدالحق بھنبھرو نے مزید کہا تھا کہ وہ اسلام کے لیے اپنی جان قربان کرنے کو بھی تیار ہیں۔

بھنبھرو خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک ذریعے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عطا محمد بھنبھرو کی قبر کو زنجیروں سے باندھ دینے کی کارروائی میں پروفیسر ساجد سومرو نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور سوشل میڈیا پر اس پر بحث بھی ہوئی تھی، جو بظاہر ریاستی اداروں کو سخت ناگوار گزری۔ بھنبھرو صاحب کی فیملی تدفین کے وقت گاؤں میں موجود تھی لیکن انہوں نے اس کارروائی میں نہ کوئی نمایاں حصہ لیا اور نہ ہی اس کی مخالفت کی۔ اب اس خاندان کا کہنا ہے کہ اس پر بہت زیادہ دباؤ ہے کہ وہ خود کو سچا مسلمان اور اچھا پاکستانی ثابت کرے، ورنہ پروفیسر ساجد سومرو کی طرح وہ بھی زیر عتاب آ سکتا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں