سنسنی خیز برفانی دور کے نقوش والی چٹانوں کی دریافت
23 دسمبر 2020
ماہرین آثار قدیمہ نے کولمبیا کے ایک دور دراز کے علاقے میں ایسی چٹانیں دریافت کی ہیں، جن پر قبل از تاریخ کے انسانوں اور جانوروں کی تصاویر نقش ہیں۔ ان میں سے کئی جانور اب صفحہ ہستی پر موجود ہی نہیں ہیں۔
اشتہار
سنسنی خیز برفانی دور کے نقوش والی چٹانوں کی دریافت
ماہرین آثار قدیمہ نے کولمبیا کے ایک دور دراز کے علاقے میں ایسی چٹانیں دیافت کی ہیں، جن پر قبل از تاریخ کے انسانوں اور جانوروں کی تصاویر نقش ہیں۔ ان میں سے کئی جانور اب صفحہ ہستی پر موجود ہی نہیں ہیں۔
تصویر: Jörg Denzer
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ پتھریلی پینٹنگز اپنی ذات کے اندر ایک بہت بڑا عجوبہ ہیں۔ جیومیٹری شکل کی یہ چٹانیں تقریبا بارہ کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان پر کئی ہزار تصاویر کنندہ ہیں۔
تصویر: Jörg Denzer
یہ تصاویر جانوروں، انسانوں، مچھلیوں، کچھوؤں، چھپکلیوں، پرندوں اور ایسے لوگوں کی ہیں، جنہوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہیں اور محو رقص ہیں۔
تصویر: Jörg Denzer
ان تصاویر میں کچھ جانور ایسے ہیں، جو کہ اب اس دنیا سے ختم ہو چکے ہیں۔ ان میں دیو قامت تنبل، برفانی دور کے گھوڑے اور حَجری دور کے اونٹ کی طرح کے جانور شامل ہیں۔
تصویر: Jörg Denzer
ان میں ایک تصویر ماستودون کی بھی ہے۔ یہ جانور ہاتھیوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور جنوبی امریکا میں بارہ ہزار سال پہلے ختم ہو گیا تھا۔
تصویر: Jörg Denzer
ان تصاویر کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ راک آرٹ بارہ ہزار پانچ سو برس پہلے بھی موجود تھی۔ ماہرین آثار قدیمہ کو وہاں سے ایسے پتھروں کے ٹکڑے بھی ملے ہیں، جن کو پیس کر رنگ بنایا جاتا تھا۔
تصویر: Jörg Denzer
ایک برٹش کولمبین ٹیم نے ان حیران کن چٹانوں کو سن دو ہزار سترہ میں دریافت کیا تھا لیکن انہیں برطانوی چینل فور کی ڈاکومیٹری کے لیے خفیہ رکھا گیا تھا۔ یہ ڈاکومینٹری دسمبر میں نشر کی گئی ہے اور اس کا نام ’’جنگل میسٹری: لاسٹ کنگڈومز آف دا ایمازون‘‘ رکھا گیا ہے۔
تصویر: Guillermo Legaria/AFP
اصل میں یہ چٹانیں سیرنیا ڈے لا لنڈوسا پہاڑی سلسلے کے بالکل وسط میں اس جگہ واقع ہیں، جہاں گھنا جنگل پھیلا ہوا ہے۔ یہ علاقہ دارالحکومت بگوٹا سے تقریبا چار سو کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اگر سیٹلائٹ تصاویر سے دیکھا جائے تو پہاڑی سلسلے میں واقع یہ علاقہ سرسبز نظر آتا ہے اور ایمیزون برساتی جنگل میں گِھرا ہوا ہے۔
تصویر: Jörg Denzer
اس جنگلاتی اور پہاڑی مقام تک پہنچنا بہت ہی مشکل ہے۔ دوسرا چند برس پہلے تک یہ فارک باغیوں کے کنٹرول میں تھا، جس کی وجہ سے ماہرین آثار قدیمہ کی یہاں تک رسائی ناممکن تھی۔ فارک باغیوں کا چند برس پہلے بگوٹا حکومت کے ساتھ امن معاہدہ ہو چکا ہے اور اس طرح پچاس سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن ہو سکا تھا۔
تصویر: Leonardo Munoz/Agencia EFE/imago images
ان چٹانوں پر انسانوں کے علاوہ ہرنوں، سانپوں، پرندوں، بندروں اور کیڑے مکوڑوں کی بھی تصاویر ہیں۔ ماہرہن کے مطابق اس دریافت سے ایمیزون علاقے میں برفانی دور کے انسان کی زندگی کا بہتر تجزیہ کیا جا سکے گا۔
تصویر: Jörg Denzer
ان تصاویر سے نہ صرف اس وقت کے جانوروں اور پودوں کی معلومات ملے گی بلکہ برفانی دور کے انسان کے رہن سہن اور رسم و رواج کا بھی پتا چل سکے گا۔
تصویر: Guillermo Legaria/AFP
10 تصاویر1 | 10
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ پتھریلی پینٹنگز اپنی ذات کے اندر ایک بہت بڑا عجوبہ ہیں۔ جیومیٹری شکل کی یہ چٹانیں تقریبا بارہ کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان پر کئی ہزار تصاویر کنندہ ہیں۔ یہ تصاویر جانوروں، انسانوں، مچھلیوں، کچھوؤں، چھپکلیوں، پرندوں اور ایسے لوگوں کی ہیں، جنہوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہیں اور محو رقص ہیں۔
وہ جانور جو اب موجود ہی نہیں
ان تصاویر میں کچھ جانور ایسے ہیں، جو کہ اب اس دنیا سے ختم ہو چکے ہیں۔ ان میں دیو قامت تنبل، برفانی دور کے گھوڑے اور حَجری دور کے اونٹ کی طرح کے جانور شامل ہیں۔ ان میں ایک تصویر ماستودون کی بھی ہے۔ یہ جانور ہاتھیوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور جنوبی امریکا میں بارہ ہزار سال پہلے ختم ہو گیا تھا۔ ان تصاویر کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ راک آرٹ بارہ ہزار پانچ سو برس پہلے بھی موجود تھی۔ ماہرین آثار قدیمہ کو وہاں سے ایسے پتھروں کے ٹکڑے بھی ملے ہیں، جن کو پیس کر رنگ بنایا جاتا تھا۔
ڈاکومینٹری کے لیے خفیہ رکھا گیا
ایک برٹش کولمبین ٹیم نے ان حیران کن چٹانوں کو سن دو ہزار سترہ میں دریافت کیا تھا لیکن انہیں برطانوی چینل فور کی ڈاکومیٹری کے لیے خفیہ رکھا گیا تھا۔ یہ ڈاکومینٹری دسمبر میں نشر کی گئی ہے اور اس کا نام ''جنگل میسٹری: لاسٹ کنگڈومز آف دا ایمازون‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ اس طرح کی برفانی دور کی آرٹ چٹانیں ابھی تک کیوں دریافت نہ ہوئیں۔
اصل میں یہ چٹانیں سیرنیا ڈے لا لنڈوسا پہاڑی سلسلے کے بالکل وسط میں اس جگہ واقع ہیں، جہاں گھنا جنگل پھیلا ہوا ہے۔ یہ علاقہ دارالحکومت بگوٹا سے تقریبا چار سو کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اگر سیٹلائٹ تصاویر سے دیکھا جائے تو پہاڑی سلسلے میں واقع یہ علاقہ سرسبز نظر آتا ہے اور ایمیزون برساتی جنگل میں گِھرا ہوا ہے۔
رسائی کی مشکلات اور فارک باغی
اس جنگلاتی اور پہاڑی مقام تک پہنچنا بہت ہی مشکل ہے۔ دوسرا چند برس پہلے تک یہ فارک باغیوں کے کنٹرول میں تھا، جس کی وجہ سے ماہرین آثار قدیمہ کی یہاں تک رسائی ناممکن تھی۔ فارک باغیوں کا چند برس پہلے بگوٹا حکومت کے ساتھ امن معاہدہ ہو چکا ہے اور اس طرح پچاس سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن ہو سکا تھا۔
ان چٹانوں پر انسانوں کے علاوہ ہرنوں، سانپوں، پرندوں، بندروں اور کیڑے مکوڑوں کی بھی تصاویر ہیں۔ ماہرہن کے مطابق اس دریافت سے ایمیزون علاقے میں برفانی دور کے انسان کی زندگی کا بہتر تجزیہ کیا جا سکے گا۔ ان تصاویر سے نہ صرف اس وقت کے جانوروں اور پودوں کی معلومات ملے گی بلکہ برفانی دور کے انسان کے رہن سہن اور رسم و رواج کا بھی پتا چل سکے گا۔