1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنوڈن کی گواہی جرمنی میں، متضاد آراء

فریڈل ٹاؤبے / امجد علی4 نومبر 2013

جرمن گرین پارٹی کا مطالبہ ہے کہ روس میں عارضی سیاسی پناہ لیے ہوئے امریکی کمپیوٹر ماہر ایڈورڈ سنوڈن کو جاسوسی کے اسکینڈل میں گواہی دینے کے لیے جرمنی لایا جائے جبکہ حکومتی حلقے اس مقصد کے لیے روس جانے پر زور دے رہے ہیں۔

اس سال چار جولائی کو جرمن دارالحکومت برلن میں ایڈورڈ سنوڈن کے حق میں ایک مظاہرے کا اہتمام کیا گیا
اس سال چار جولائی کو جرمن دارالحکومت برلن میں ایڈورڈ سنوڈن کے حق میں ایک مظاہرے کا اہتمام کیا گیاتصویر: picture-alliance/dpa

جمعرات 31 اکتوبر کو روس کے دورے پر گئے ہوئے وفاقی جرمن پارلیمان کے بزرگ رکن ہنس کرسٹیان شٹروئبلے نے سنوڈن کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں سنوڈن نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے نام جو خط دیا، اُس میں انہوں نے یہ لکھا تھا کہ وہ اصولی طور پر این ایس اے کے جاسوسی اسکینڈل کے سلسلے میں جرمنی میں ایک پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے بیان دینے کے لیے تیار ہیں۔

ایسے میں جو چیز ایک ہفتہ پہلے تک محض ایک امکان نظر آتی تھی، اب وہ ٹھوس شکل اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے اور وہ ہے، سنوڈن کا جرمنی میں گواہ کے طور پر پیش ہونا۔ تاہم اس مقصد کے لیے اُنہیں وفاق روس میں اپنے تارکِ وطن کے تشخص سے دستبردار ہونا ہو گا اور دوبارہ روس پہنچنے پر نئے سرے سے سیاسی پناہ کی درخواست دینا ہو گی۔ ان حالات میں بہت سے جرمن سیاستدانوں کے خیال میں ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ سنوڈن کو جرمنی میں سیاسی پناہ دے دی جائے۔

ایڈورڈ سنوڈن ماسکو میںتصویر: picture-alliance/AP Photo

جرمنی کی سیاسی جماعت الائنس نائنٹی گرینز کی نائب صدر کلاؤڈیا روتھ کہتی ہیں:’’اگر ایڈورڈ سنوڈن کو آزادی سے جرمنی آنے دیا جائے، یہاں قیام کی اجازت دی جائے اور وہ گواہ کے طور پر پیش ہو سکیں تو ہمارے لیے یہ ایک اچھا سگنل ہو گا۔‘‘

ممتاز جرمن ہفت روزے ’ڈیئر اشپیگل‘ کے تازہ شمارے میں کرسچین ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یُو کے سابق سیکرٹری جنرل ہائنر گائسلر اور اداکار ڈانیل بروہل سمیت پچاس ممتاز جرمن شخصیات نے اس حق میں رائے دی ہے کہ سنوڈن سے گواہی جرمن سرزمین پر لی جانی چاہیے۔

بائیں بازو کی جماعت ’دی لِنکے‘ کے چیئرمین بیرنڈ ریکسنگر کا مطالبہ یہ ہے کہ سنوڈن کو اس گواہی کے بدلے جرمنی میں سیاسی پناہ دے دی جائے:’’میرے خیال میں اس سارے معاملے کی وضاحت کے سلسلے میں سنوڈن نے تمام خفیہ اداروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اگر وہ کوئی چینی یا روسی شخصیت ہوتا تو اُسے کب کا جرمنی میں سیاسی پناہ دی جا چکی ہوتی۔‘‘

دوسری جانب سنوڈن ایک امریکی شہری ہیں اور اُنہیں سیاسی پناہ دینے کا مطلب ہوگا، حوالگی کے سمجھوتے کو توڑنا اور سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرنا۔ چانسلر میرکل نے حسبِ توقع اس معاملے میں مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاہم پارلیمان میں اُن کی جماعت کے ناظم الامور مشائیل گروسے بروئمر کا کہنا یہ تھا کہ موجودہ قانونی حالات میں وہ اس بات کو ترجیح دیں گے کہ سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے کی بجائے اُن کی گواہی روس جا کر لے لی جائے:’’اُنہیں سیاسی بنیادوں پر تعاقب کا سامنا نہیں ہے بلکہ وہ فوجداری مقدمے میں مطلوب ہیں اور ایسی صورت میں جرمنی کے بنیادی آئین میں سیاسی پناہ کی گنجائش نہیں بنتی۔‘‘

گروسے بروئمر کے خیال میں جرمن پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹی کا کوئی بھی نمائندہ ماسکو جا کر وہاں سنوڈن کی گواہی لے سکتا ہے۔

وفاقی جرمن پارلیمان کے بزرگ رکن ہنس کرسٹیان شٹروئبلے کی سنوڈن کے ساتھ ملاقاتتصویر: picture-alliance/dpa

اُدھر ماسکو حکومت نے گزشتہ ہفتے کو یہ اعلان کیا کہ سنوڈن آزادی کے ساتھ روس میں جس کے ساتھ چاہے، ملاقات کر سکتا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے وفاقی جرمن وزارتِ داخلہ کے حوالے سے بتایا کہ سنوڈن سے ویڈیو کے ذریعے پوچھ گچھ کا امکان بھی موجود ہے۔

سنوڈن کو جرمنی میں قیام کا اجازت نامہ دینے کی اور بھی کئی صورتیں ممکن ہیں تاہم ایسی کوئی بھی صورت امریکا کے ساتھ تعلقات پر منفی اثرات ضرور مرتب کرے گی۔ امریکا حفظ ماتقدم کے طور پر اس سال جولائی میں ہی سنوڈن کے جرمنی آنے کی صورت میں اُس کی گرفتاری کی درخواست دے چکا ہے۔ یہ درخواست ابھی تک وفاقی جرمن وزارتِ انصاف میں پڑی ہے اور ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں بھیجا گیا ہے۔

جرمن پارلیمان کی نائب اسپیکر روتھ کے خیال میں یہ درست نہیں ہو گا کہ امریکا کے خیال سے سنوڈن سے جرمنی میں پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ سنوڈن کو جرمنی میں خوش آمدید کہنا اتنی بڑی اشتعال انگیزی نہیں ہے، جتنی بڑی یہ کہ این ایس اے کی جانب سے منصوبہ بندی کے ساتھ جرمن چانسلر اور اپوزیشن سیاستدانوں کی بھی جاسوسی کی گئی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں