پاکستان کے شہر لاہور میں ایسے نوجوان فوٹوگرافروں کی تصویروں کی نمائش کی گئی جو اتوارکو صبح سویرے اکھٹے ہو کر شہر کی گلیوں میں گھومتے ہیں۔ یہ سنڈے واکرز اپنے کیمرے کی آنکھ سے عام لمحات کو خاص بنا دیتے ہیں۔
اشتہار
’آوارہ گرد کی ڈائری‘ کے عنوان سے منعقد جانے والی اپنی نوعیت کی اس منفرد نمائش کا اہتمام انہی نوجوانوں کی تنظیم ’سنڈے واکرز‘ نے ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب (ٹی ڈی سی پی) کے تعاون سے کیا۔ اس تصویری نمائش کو دیکھنے کے لیے آنے والے سینکڑوں افراد میں ملک کے نامور فوٹو گرافر بھی موجود تھے جنہوں نے نوجوان فوٹوگرافرز کو فوٹوگرافی کے حوالے سے مفید مشورے دیے۔ اس نمائش کا افتتاح فوٹو گرافی کا شوق رکھنے والی ایک غیر معروف اور کم عمر فوٹو گرافر لڑکی شہر بانو نے کیا۔
فوٹو گرافی کی اس نمائش میں آٹھ فوٹو گرافرز کی چالیس تصاویر کو نمائش کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس نمائش کے ایک منتظم اور نوجوان فوٹو گرافر محمد اسلم گوجر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ’ٹی ڈی سی پی‘ نے نمائش لگانے کے لیے انہیں بلا معاوضہ جگہ دی ہے جبکہ اس نمائش میں شرکت کرنے والے ہر فوٹوگرافر پر تین ہزار روپے فی کس اخراجات آئے اور یہ اخراجات ہر بچے نے اپنے جیب خرچ سے ادا کیے ہیں۔ محمد اسلم کے بقول ’’یہ پہلا موقع ہے کہ ہمیں ٹی ڈی سی پی سے نمائش کے لیے جگہ ملی ہے، اس سے پہلے ہونے والی چار نمائشوں کو جگہ نہ ملنے کی وجہ سے گلیوں میں ہی لگایا گیا تھا۔‘‘
سنڈے واکرز کی منفرد تصویریں
یہ پہلا موقعہ ہے کہ ’سنڈے واکرز‘ کی نمائش میں لاہور سے باہر کے علاقوں میں لی جانے والی تصویروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ گوردوارہ جنم الستھان میں لی جانے والی ایک تصویر میں ایک سکھ یاتری تقسیم ہند سے پہلے کے اپنے شناسا چہرے تلاش کرتا پھر رہا ہے، ایک دوسری تصویر میں دریائے راوی کے کنارے غروب آفتاب کے منظر کو کیمرے میں محفوظ کیا گیا۔ ایک اور تصویر میں رش والے چوک میں بڑی سی لاٹھی کے ساتھ سڑک پار کرنے والے بوڑھے شخص کے عزم اور ہمت کوسامنے لایا گیا۔ باپ کی شفقت ظاہر کرتی ایک تصویر میں ایک باپ اپنے بچے کو اٹھائے جا رہا ہے، بچے کے ہاتھ میں ابھی خریدا گیا غبارہ ہے اور بچے کی خوشی والد کی مسرتوں میں اضافہ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک تصویر گھر کی کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے بچے کی حسرتوں کو سامنے لا رہی ہے۔
اپنی مدد آپ کے تحت فوٹو گرافی
’سنڈے واکرز‘ نامی اس چھوٹی سی تنظیم کا وجود سن دو ہزار سولہ میں اُن ’نان پرافیشنل‘ اور ’نان کمرشل‘ نوجوان فوٹوگرافر بچوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جو اپنے ٹیلنٹ کے اظہار کے لیے کوئی مناسب پلیٹ فارم نہ ملنے پر رنجیدہ تھے۔ ان کے پاس وسائل تو نہیں تھے لیکن فوٹو گرافی کا شوق بدرجہا اتم موجود تھا۔ انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت فوٹو گرافی کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا فیصلہ کیا۔
’پاکستان کے لوگوں نے میرا دل موہ لیا‘
محمد اسلم کے بقول پچھلے کئی سالوں سے یہ نوجوان فوٹو گرافرز صبح سویرے اپنے کیمرے لے کر نکلتے ہیں، اور شہر کی گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر اچھے سے اچھے مناظر تلاش کرتے ہیں۔ ’’ کبھی ہم اندرون شہر چلے جاتے ہیں، کبھی راوی کنارے پہنچتے ہیں ، کبھی سبزی منڈی منزل ٹھہرتی ہے اور کبھی نہر والا راستہ ہمارے قدموں کے نیچے ہوتا ہے۔‘‘
سنڈے واکرز میں طالب علم پیش پیش
اس نمائش میں جن بچوں نے شرکت کی ان میں گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ گرافک ڈیزائن کے سترہ سالہ طالب علم محمد وقاص احمد بھی شامل تھے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے وقاص کا کہنا تھا کہ سنڈے واکرز کے دوستوں سے مل کر فوٹو گرافی کرتے ہوئے باہمی بات چیت کے ذریعے اپنی خامیوں کو جاننے اور اچھی فوٹو گرافی کی نئی تکنیک کا پتہ چلا ہے۔ ان کے بقول، وہ نہیں جانتے کہ وہ اپنی فوٹو گرافی کی صلاحیت کو کیسے مارکیٹ کرسکتے ہیں۔
نیشنل کالج آف آرٹس میں ’ویزوئل کمیونیکیشن ڈیزائن‘ کی اسما نامی ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ آرٹ ایک ایسی قوت ہے جو انسانوں کے رویے بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسما کے مطابق حکومت کو نوجوان فنکار اور فوٹوگرافروں کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے تاکہ پاکستانی معاشرے کو مزید پرامن اور مزید بہتر بنایا جا سکے۔
ایک سوال کے جواب میں سنڈے واکرز کے مختلف ارکان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان تصویروں کے ذریعے وہ نا صرف اپنے شوق کی تکمیل کر رہے ہیں بلکہ سماجی مسائل کو اجاگر کرکے ان کے حل کے لیے بھی کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے انتظامی حکام سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہوجانے کے باوجود بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ اور مزار اقبال جیسے متعدد تاریخی مقامات کی تصویریں بنانے پر پابندی عائد ہے۔ ان کے بقول ان تصویروں سے پاکستان کا تشخص مزید بہتر ہوگا اور سیاحت کو بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔
لاہور کے علاقے نیو گارڈن ٹاؤن میں واقع ’ٹی ڈی سی پی‘ کی عمارت میں سات دسمبر کو شروع ہونے والی یہ دو روزہ نمائش اتوار کی شام تک جاری رہی۔
’پاکستان ناؤ: پاکستان ایک جرمن فوٹوگرافر کی نظر سے
’’پاکستان کے عِشق میں گرفتار ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا‘‘، جرمن فوٹو گرافر مانولو ٹے۔
تصویر: Nils Harder
’’پاکستان ناؤ‘‘ کے لیے 277 تصویروں کا انتخاب
جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹے تین سال قبل پاکستان چھ ہفتے کے مختصر دورے پر گئے تھے۔ مانولوٹے سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ثقافت اور ورثہ سے بہت متاثر ہوئے۔ دستاویزی کتاب ’’پاکستان ناؤ‘‘ کے لیے مانولوٹے نے 277 تصویروں کا انتخاب تقریباﹰ 15000 تصویروں کے مجموعے میں سے کیا ہے۔
تصویر: Manolo Ty
کراچی میں ساحلِ سمندر لوگوں کا پسندیدہ تفریحی مقام
ساحلِ سمندر کے نظاروں کے ساتھ، وہاں لگے ٹھیلوں پر چٹ پٹے سنیکس سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی یہ اچھی جگہ ہے۔ شہرِ کراچی پاکستان کا آبادی اور رقبے کے اعتبار سے سب بڑا شہر ہے۔ عموماﹰَ موسمِ گرما میں جب درجہ حرارت 45 ڈگری تک پہنچتا ہے تو شہرِ کراچی کی عوام اکثر ویک اینڈ پر سمندر کے ٹھنڈے پانی کی لہروں کے قریب بیٹھ کر آرام کرتے ہیں۔
تصویر: Manolo Ty
ایک صحافی کومل قریشی کی روایتی انداز میں سجے اونٹ پر سواری
مانولو ٹے کے مطابق اکثر مغربی اور جرمن ذرائع ابلاغ میں پاکستانی خواتین کو تشدد کا نشانہ یا پھر مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں مانولوٹے جرمن عوام کو اس تصویر کے ذریعے پاکستانی خواتین کے مثبت پہلو سے متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ کومل کی طرح بیشتر نوجوان تعلیم یافتہ پاکستانی خواتین اپنے مستقبل کے بارے میں پر اعتماد ہیں اور وہ سماجی مسائل کے اصلاح کے لیے حکمرانوں سے سوال بھی کرتی ہیں۔
تصویر: Manolo Ty
روایتی پاکستانی شادی
جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹے نے پاکستانی شادی کے جشن کو ایک طویل تہوار سے مشابہت دی ہے۔ اپنی کتاب میں مانولوٹے نے لکھا ہے کہ پاکستان میں شادی کے جشن کا اختتام ولیمہ یعنی گرینڈ ڈنر سے ہوتا ہے۔ کثیر تعداد میں دوستوں اور رشتہ داروں کو ولیمہ کا دعوت نامہ دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ثقافتی طور پر شادی نہ صرف شوہر اور بیوی کے درمیان ایک بندھن ہے بلکہ ان کے خاندانوں کے درمیان بھی رشتہ داری کا سبب بنتا ہے۔
تصویر: Manolo Ty
مکلی کے قبرستان کا ایک نظارہ
10 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پانچ لاکھ قبروں اور مقبروں کے ساتھ، مکلی کا قبرستان دنیا کے سب سے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہے۔ 1981ء میں عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر نامزد کیے جا نے کے باوجود مقبروں اور قبروں کے تحفظ اور بحالی کی اشد ضرورت آج بھی ہے۔ مکلی پہاڑی پر چودہ اور اٹھارویں صدی کے درمیانی دور کے سندھ کی تاریخ و تہذیب کے مثالیں موجود ہیں۔
تصویر: Manolo Ty
بحری جہاز توڑنے کا دنیا کا تیسرا بڑا مرکز ’گڈانی‘
صوبہ بلوچستان کا ساحلی گاؤں ’گڈانی‘ بحری جہاز توڑنے کا دنیا کا تیسرا بڑا مرکز ہے۔ بحری جہازوں کو توڑنے کے بعد مزدور اسکریپ میٹل کو ہاتھوں سے اٹھا کر کنارے پر لاتے ہیں۔ ایک جہاز کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے تین ماہ درکار ہوتے ہیں۔
تصویر: Manolo Ty
روایتی پاکستانی ٹرک اور کپاس کی نقل وحمل
روایتی پاکستانی ٹرک آرٹ سے سجے ٹرک کو کپاس کے ذرائع آمد و رفت کے لیے زیادہ سے زیادہ بھرا جاتا ہے۔ کپاس کی لوڈنگ کے دوران ٹرک کے دونوں اطراف پر یکساں وزن تقسیم کیا جاتا ہے۔ عام طور پر ہائی وے کے دو لین پر ٹرک پر لدی کپاس لٹکی ہوتی ہے۔ کپاس کے ریشے کو سوت، دھاگہ، کپڑا اور دیگر گارمنٹس کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ بیج سے کھانے پکانے کا تیل بھی تیار کیا جا تا ہے۔
تصویر: Manolo Ty
پاکستانی اقلیتوں کی عکاسی
مانولو ٹے نے اس کتاب میں پاکستان کی اقلیتوں کی زندگی کو بھی نمایاں طور پر دکھایا ہے۔ اس تصویر میں سکھر کے قریب دریائے سندھ کے ایک جزیرے ’’سادھ بیلو‘‘ کے قدیم مندر میں جانے سے قبل ہندو خواتین رنگا رنگ لباس میں ملبوس ہیں۔ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع شہر سکھر میں بسنے والے ہندو خاندان کی مہمان نوازی سے مانولوٹے بے حد متاثر تھے۔
تصویر: Manolo Ty
کشتی ایک روایتی کھیل
ایک روایتی کھیل کے طور پر، کشتی پاکستان کے دیہی علاقوں میں لڑی جاتی ہے۔ صوبہ پنجاب میں اس روایتی کھیل کو کُشتی کہا جاتا ہے جب کہ صوبہ سندھ میں یہ ’’ملاکھڑے‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بعض دیہی علاقوں میں سالانہ میلوں کے دوران کشتی کے مقابلوں کو مرکزی توجہ حاصل ہوتی ہے۔ کشتی میں طاقتور مرد پہلوان میدان پر ایک دوسرے کےمدِ مقابل ہوتے ہیں۔
تصویر: Manolo Ty
فیصل مسجد کے پیش امام سے ملاقات
مانولوٹے نے شرکاء کو خصوصاﹰ اسلام آباد کی مشہور شاہ فیصل مسجد کے پیش امام سے ملاقات کے بارے میں بتایا۔ مانولو کا کہنا تھا کہ مکالمے کے دوران پیش امام صاحب نے جب ان کے عقیدے کے بارے میں سوال کیا تو وہ سمجھے کہ اب امام صاحب ان کو دینِ اسلام کا درس دیں گے۔ لیکن حقیقتاﹰ اس کے برعکس ہوا۔ امام صاحب نے مانولوٹے کے ذاتی عقیدے کا احترام کرتے ہوئے بین المذہب ہم آہنگی اور محبت کا پیغام دیا۔
تصویر: Manolo Ty
صوفی ثقافت کی ایک جھلک
’’پاکستان ناؤ‘‘ کتاب میں جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹے نے پاکستان کی صوفی ثقافت کی جھلکیاں بھی پیش کی ہیں۔ لاہور میں ہر جمعرات کو بابا شاہ جمال کے مزار پر ان کے مریدوں کی جانب سے بذریعہ دھمال انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ درگاہ پر صوفی موسیقی سننے کے لیے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ صوفی ملنگ ڈھول کی تھاپ پر رقص کے ساتھ روحانی انداز سے خدا کے لیے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔