1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنکیانگ میں تبدیلی سوچ کے مراکز، چینی ایغور مسلمانوں خوفزدہ

18 ستمبر 2018

گزشتہ کچھ برسوں کے دوران چین میں ایغور اور قازق نسل کے لاکھوں افراد کو مبینہ طور پر مخصوص مراکز میں بند کر دیا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کی ذہنی تربیت کے ایسے ہی ایک مرکز میں مقید رہنے والے ایک شخص کے اہل خانہ سے ملاقات۔

China Ethnie der Uiguren
تصویر: picture-alliance/Kyodo

قائرات سمر خان بظاہر گم سم اور بے نیاز دکھائی دے رہا تھا، ہو سکتا ہے کہ وہ پورا دن کام کرنے کے بعد تھکان سے چور ہو۔ وہ ایک مرتبہ اپنا سر دیوار میں مار کر اپنی جان لینے کی کوشش بھی کر چکا ہے، ’’مجھ سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو رہا‘‘۔

سمر خان کا تعلق چینی صوبے سنکیانگ سے ہے اور وہ اس صوبے میں مسلمانوں کی ذہنی تربیت کے نام پر قائم مراکز میں قید بھی رہ چکا ہے۔ ان حراستی مراکز میں مسلم شہریوں کو رکھا جاتا ہے اور انہیں ’تعلیم‘ دی جاتی ہے تاکہ وہ شدت پسندی کی جانب راغب نہ ہو سکیں۔

تصویر: Getty Images/K. Frayer

بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق اس پورے خطے میں پھیلے ہوئے ان مراکز میں ایک ملین سے زائد شہری زبردستی رہنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر ایغور اور قازق نسل کے لوگ ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق چین میں ثقافتی انقلاب کے بعد اس پیمانے کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پہلے نہیں دیکھی گئیں۔

کوئی یقین ہی نہیں کرتا

قزاقستان کے دارالحکومت آلماتی میں’Atajurt‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے دفتر میں بہت سارے افراد اکھٹے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کے ہاتھوں میں اپنے اُن رشتہ داروں کی تصاویر اور شناختی دستاویزات ہیں، جنہیں مبینہ طور پر چینی حکام نے سنکیانگ میں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک ٹیم ان تمام افراد کی داد رسی کرتے ہوئے یہ تفصیلات درج کرنے کا کام کرتی ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. H. Guan

’Atajurt‘ کا قیام 2017ء میں اس وقت عمل میں آیا تھا، جب پہلا قازق شہری رہائی کے بعد اس وسطی ایشیائی ملک پہنچا تھا۔ اس تنظیم کے بانی نے بتایا، ’’جب ہم نے اس پہلے واقعے کی تفصیلات عام کیں تو کسی نے ہم  پر یقین نہیں کیا تھا۔‘‘ قزاقستان کے سنکیانگ صوبے سے قریبی روابط ہیں۔ تقریباً سولہ لاکھ قازق نسل کے افراد اس چینی صوبے میں رہتے ہیں۔

احتجاج یا دہشت گردی

چینی صوبے سنکیانگ میں تنازعہ بہت پرانا ہے۔ یہاں پر ایغور نسل سے تعلق رکھنے والے سب سے بڑی تعداد میں آباد ہیں اور وہ کئی مرتبہ چینی حکمرانی کے خلاف صدا بلند کر چکے ہیں۔ 2009ء میں ارمچی میں ایک ایسی ہی بغاوت کے دوران دو سو افراد نے جان گنوائی تھی۔ 2014ء میں ایغور علیحدگی پسندوں نے جنوبی چینی شہر کنمنگ میں خنجروں سے حملے کرتے ہوئے انتیس افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔


تصویر: picture-alliance/dpa/D. Azubel

سوچ کی تبدیلی کے مراکز‘

متعدد حلقوں کے مطابق چینی حکام دہشت گردانہ نظریات اور ثقافتی آزادی کے لیے کوششوں کے مابین فرق نہیں کر پا رہے۔ صدر شی جن پنگ کہہ چکے ہیں، ’’ دہشت گردی کی جڑ نسلی علیحدگی پسندی ہے اور مذہبی شدت پسندی اس کا نظریہ ہے۔‘‘ قائرات سمر خان ان چند افراد میں سے ایک ہے، جو چین سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ نظریات تبدیل کرانے کے ان مراکز میں مقید رہنے والے وہ واحد شخص ہیں، جنہوں نے اپنا پورا نام استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، ’’اگر ہم یہ نہیں بتائیں گے کہ وہاں کیا ہوتا ہے تو کون اپنی زبان کھولے گا؟‘‘ قزاقستان کی انتظامیہ سمر خان کو چین کے اثر و رسوخ کے بارے میں پہلے ہی خبردار کر  چکی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں