1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنکیانگ کی لیک شدہ دستاویزات درست ہو سکتی ہیں، ماہرین

25 مئی 2022

ماہرین نے بتایا ہے کہ سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کے استحصال بارے میں لیک شدہ خفیہ دستاویزات درست ہونے کا قوی امکان ہے۔ ان فائلوں کے مطابق سنکیانگ میں اقلیتی ایغور آبادی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہے۔

Xinjiang Police Files
تصویر: Ng Han Guan/AP/picture alliance

چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ چینی حکومت کے ناروا سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بارے میں زیادہ 'مصدقہ‘ معلومات ان فائلوں سے معلوم ہوئی ہیں جو خفیہ طور پر افشا ہوئی ہیں۔ ان میں تصاویر اور دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ مقامی پولیس ایغور مسلمانوں کے ساتھ کیسے ظالمانہ طریقے استعمال کرتی ہے۔

چین پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کی ذہنی تطہیر کے لیے ایسے حراستی مراکز قائم کر رکھے ہیں جہاں پر انہیں ثقافت اور مذہب سے دوری اختیار کرنے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ ان حراستی مراکز میں دس لاکھ سے زائد افراد کو مانڈرین چینی زبان سکھانے کے ساتھ ساتھ جو تربیت دی جا رہی ہے، اس کے مطابق انہیں کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ وابستگی اور سیکولر سوچ کو اپنانا شامل ہے۔

ایغور آبادی کے لوگ سنکیانگ کے ایک مقام پر دعا مانگتے ہوئےتصویر: Kevin Frayer/Getty Images

چینی وزارتِ خارجہ نے ان افشاء شدہ فائلوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں چین مخالف مواد قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے انہیں چین مخالف میڈیا کی جانب سے جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کا سلسلہ قرار دیا ہے۔

جرمن محقق کا موقف

امریکا میں مقیم جرمن ریسرچر اڈریان سینز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان فائلوں کو جھوٹا قرار دینا قریب قریب ناممکن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں یہ فائلیں ایک نامعلوم ذریعے سے موصول ہوئی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی نے سنکیانگ میں سرکاری ڈیٹا بینک سے ان فائلوں کو ہیک کیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اڈریان شینز کا کہنا تھا کہ ایسی فائلیں جھوٹ پر مبنی ہو سکتی ہیں لیکن ان فائلوں کی صداقت سے انکار بہت مشکل ہے کیونکہ اتنا زیادہ مواد اور تصاویر کا جعلی انداز میں تیار کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔ اڈریان سینز امریکا میں کمیونزم کے متاثرین کے بارے میں قائم ایک یادگاری فاؤنڈیشن کے ساتھ منسلک ہیں۔

امریکا میں مقیم جرمن ریسرچر اڈریان سینز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان فائلوں کو جھوٹا قرار دینا قریب قریب ناممکن ہے۔تصویر: Martial Trezzini/KEYSTONE/picture alliance

اڈریان سینز کا مزید کہنا تھا کہ کسی ہیکر نے پولیس کے کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کر کے ان فائلوں کو اٹھایا ہے، جن میں حراستی مراکز بارے شواہد موجود تھے۔ ان کے مطابق ہیکر یا ہیکرز چینی سسٹم کے سکیورٹی نظام کو توڑ کر داخل ہوئے اور ان فائلوں کو حاصل کیا ہے۔

چین کا ایغور کمیونٹی کے خلاف ظالمانہ جرائم کا ارتکاب

انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر کینیتھ روتھ نے بھی ان خفیہ فائلوں کو اہم دستاویزات خیال کرتے ہوئے انہیں درست قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان فائلوں میں موجود مواد ان حقائق کے بہت قریب بھی ہے اور پہلے سے موجود شواہد کو درست بھی ثابت کرتا ہے۔

انہوں نے ایغور کمیونٹی کے خلاف چینی اقدامات کو انسانیت کے خلاف جرائم میں شمار کیا ہے۔ روتھ کے مطابق ایسے ظالمانہ اقدامات کی دوسری مثال ملنا مشکل ہے۔

نیدرلینڈز میں مقیم ایغور افراد کا مظاہرہتصویر: Romy Arroyo Fernandez/NurPhoto/picture alliance

جرمن اور امریکی بیانات

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے ان فائلوں کی روشنی میں شفاف تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے منگل چوبیس مئی کو اپنے چینی ہم منصب وانگ یی سے ٹیلی فون پر گفتگو بھی کی۔ جرمن وزیر خارجہ نے ان لیک ہونے والی فائلوں کے مواد کو سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نئے شواہد قرار دیا۔

امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان فائلوں کے حوالے سے کہا کہ ان فائلوں میں موجود مواد خوف زدہ کرتا ہے اور تصاویر نہایت ناموافق صورت حال کی عکاس ہیں۔

ویزلی ڈوکیری (ع ح/ب ج)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں