1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنکیانگ کے پرتشدد واقعات کی جڑیں اور علاج چین ہی میں

5 اگست 2011

ماہرین کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ چین کے مغربی مسلم اقلیتی علاقے سنکیانگ میں تشدد کی وجہ اور علاج چین ہی میں ہے۔ بیجنگ نے حالیہ ہنگاموں کی ذمہ داری پاکستان سے تربیت حاصل کرنے والے دہشت گردوں پر ڈالی تھی۔

تصویر: AP

برسلز میں جرمن مارشل فنڈ نامی تھنک ٹینک سے وابستہ اینڈریو سمال کے بقول ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ ETIM میں اب پہلے جیسا دم خم نہیں۔ یہ تنظیم سنکیانگ کی چین سے علیٰحدگی کے لیے سرگرم خیال کی جاتی ہے۔ چینی حکومت نے گزشتہ اتوار کو کاشغر شہر میں دہشت گردی کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم پر ڈالی تھی۔ سنکیانگ صوبے کے اس شہر میں ایغور مسلمانوں کی بڑی تعداد بستی ہے، جو تمدن کے اعتبار سے ہان چینیوں کے مقابلے میں ترک او وسط ایشیائی اقوام کے زیادہ قریب ہیں۔

اینڈریو سمال کے خیال میں ETIM میں اب قیادت کا فقدان ہے اور وہ بیجنگ حکومت سے ٹکرانے کی طاقت کھوچکی ہے۔ ان کے بقول، ’’ میں نے پاکستان اور چین کے جن لوگوں سے تبادلہ خیال کیا، اس سے ETIM کی صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات ابھرتے ہیں، میرے خیال میں چین ETIM کو بہت بڑا خطرہ خیال نہیں کرتا، وہ اس پر اس لیے الزام عائد کرتے ہیں تاکہ مقامی مسائل سے توجہ ہٹائی جاسکے۔‘‘

گزشتہ ہفتے پیش آنے والے بدامنی کے واقعے کے بعد ایک زخمی کو ہسپتال لے جایا جا رہا ہےتصویر: AP

وہ سنکیانگ میں شدت پکڑتی لسانی تقسیم اور ایغور شہریوں کے اندر ہان چینیوں کے لیے بڑھتے ہوئے غصے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ایسے ہی خیالات یانگ شو کے ہیں، جو چین کی لانژہو یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ یہ تنظیمی بنیادوں پر نہیں ہورہا، بلکہ یہ ایسے گروہوں کی بنیاد پر ہورہا ہے، جن کا یہ مشترکہ مقصد ہے کہ ہان چینیوں اور حکومتی اہداف کو نشانہ بنایا جائے۔

سنکیانگ میں ایغور اور ہان چینیوں کے مابین فسادات میں 2009ء میں شدت دیکھی گئی تھی، جس کے سبب درجنوں ہلاکتیوں ہوئیں۔اسے حل کرنے کے لیے بیجنگ حکومت نے علاقے میں روزگار کی فراوانی کی خاطر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تھی۔

سنکیانگ میں ایک حکومت مخالف مظاہرے کا منظرتصویر: dpa

ماہرین کی رائے میں یہ اقدامات ایغور شہریوں کو مطمئن کرنے کے لیے ناکافی ہیں، جن کے خیال میں ہان چینی ان کے آبائی علاقوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ ایغور اپنے آبائی علاقے کو مشرقی ترکیستان کا نام دیتے ہیں۔ ایغور کے مسائل پر تحقیق کرنے والے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے وابستہ ٹوم کلف کہتے ہیں، ’’ایغور سمجتھے ہیں کہ ایک طرف تو ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے دوسری طرف بیجنگ حکومت بھی ان کی نہیں سنتی۔‘‘

پاکستان پر الزام تراشی کے سلسلے کو اس ضمن میں اہم خیال کیا جا رہا ہےکہ بیجنگ کے خیال میں ایغور علیٰحدگی پسندوں کے اہم لیڈران قبائلی علاقے ہی میں ہیں۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں