سنگاپور میں سیاسی گہما گہمی ، فیس بک کی مقبولیت
17 ستمبر 2010نوجوان سیاستدان اپنی سیاسی ملاقاتوں اور حکومت مخالف رائے کے اظہار کے لئے فیس بک جیسے میڈیم کا استعمال کرتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
سنگاپور میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے لئے مشکلات کوئی نئی بات نہیں ہیں، مگر اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاست میں نووارد 24 سالہ نوجوان بیرنارڈ چَین نے سیاسی سرگرمیوں میں فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے استعمال سے اپنے اور اپنے کارکنان کے لئے خاصی آسانیاں پیدا کر لی ہیں۔
سنگاپور میں حکمران جماعت پیپلز ایکشن پارٹی گزشتہ 51 برسوں سے بلا شرکت غیر ے پارلیمانی سطح پر واضح اکثریت کی حامل رہی ہے۔ اس وقت بھی سنگاپور کی پارلیمان میں موجود 84 نشستوں میں سے 82 اسی پارٹی کے پاس ہیں۔
سنگاپور کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ ملکی سیاست میں نوجوانوں کی دلچسپی میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یہ ملک فروری 2012ء میں اپنے مجوزہ پارلیمانی انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں سنگاپور کے نوجوان ملکی سیاست کے رخ اور آئندہ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں۔
بیرنارڈ چَین کا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پارلیمان میں پیپلز ایکشن پارٹی کی اکثریت کو کم یا ختم کر دیا جائے تاکہ مختلف طرز فکر کے حامل منتخب نمائندے اور جماعتیں بھی پارلیمان میں دکھائی دیں اور ملک میں جمہوریت اپنے اصل رنگ میں نظر آئے۔
ان کے مطابق ملک میں ووٹروں کے لئے کم سے کم عمر کی حد اکیس برس ہے تاہم وہ حکومت پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کہ اس عمر میں کمی کر کے اسے 18 برس کر دیا جائے۔ چَین کے مطابق اگر ایسا ہوتا ہے تو فیس بک اور ٹوئٹر استعمال کرنے والے نوجوان بھی ملک کے سیاسی مستقبل میں اپنا کردار ادا کر پائیں گے۔
کسی ممکنہ کارروائی یا پولیس سے بچنے کا انوکھا طریقہ چَین اور ان کے نوجوان ساتھیوں نے کچھ یوں نکالا ہے کہ وہ حکومت پر کڑی تنقید کے لئے فیس بک اور ٹوئٹر جیسی سوشل ویب سائٹس استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کی جانب سے دی آن لائن سیٹیزن ڈاٹ کام اور تیماسیکرے ویو ڈاٹ کام جیسی ویب سائٹس پر نوجوانوں کے حکومت مخالف بلاگز میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
سنگاپور مینیجمنٹ یونیورسٹی کے مقامی سیاست کے شعبے سے وابستہ پروفیسر اوگنے تان کے مطابق سنگاپور میں مضبوط حزب اختلاف کی موجودگی خود حکمران جماعت کی کارکردگی اور ملکی ترقی کے لئے نہایت مفید رہے گی۔
سنگاپور کی حکمران جماعت PAP برطانیہ سے تعلیم حاصل کر کے واپس وطن لوٹنے والے اس وقت کے ایک 31 سالہ نوجوان سیاست دان لی کوان یو نے سن 1954ء میں قائم کی تھی۔ وہ سن 1959ء سے سن 1990ء تک ملکی وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان بھی رہے تھے۔ سن 2004ء سے ان کے بیٹے لی ہسین لوُنگ اس ملک کے وزیراعظم ہیں۔ گو کہ اس جماعت نے ملک کو شاندار ترقی دی اور اس ملک کو دنیا کے امیر معاشروں میں سے ایک بنایا تاہم ناقدین کی رائے ہے کہ ان تمام خوبیوں کے باوجود یہ جماعت ملک میں مخالف سیاسی نظریات اور آزادی رائے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک