1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنگاپور میں ہم جنس افراد کے باہمی جنسی رابطوں پر پابندی ختم

22 اگست 2022

سنگا پور میں ہم جنس افراد کے مابین جنسی تعلق کے قیام پر عائد پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے کو ایل جی بی ٹی کیو برادری کے حقوق کے تحفظ کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

Singapur | Pink Dot LGBT
تصویر: ROSLAN RAHMAN/AFP/Getty Images

 

ایشیا بحرالکاہل کے علاقے میں تقریباﹰ پانچ ملین کی آبادی والے سنگاپور میں ایل جی بی ٹی کیو برادری سے متعلق مختلف قوانین اور رویے پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے علاقوں میں ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے مابین جنسی عمل کو  ناقابل تعزیر قرار دیا گیا ہے تاہم رفع تعزیر کے باوجود ان میں سے بہت ہی کم خطوں میں ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو آپس میں شادی، پارٹنرشپ یا کسی بھی قسم کے قانونی سماجی اتحاد کی اجازت ہے۔ سنگاپور نے اس بارے میں اب اپنے آئین میں ترمیم کا عندیہ دیا ہے۔

ایشیا پیسیفک کے خطے کے چند ممالک کی صورتحال یوں ہے:

آسٹریلیا

تمام ریاستوں اور خطوں نے 1975ء اور 1997ء کے درمیان ہم جنس پرستوں پر پابندی کو منسوخ کر دیا تھا جب کہ پارلیمنٹ نے 2017 ء میں ہم جنس پرستوں کی آپس میں شادیوں کو قانونی حیثیت دے دی تھی۔ 2016 ء  سے تمام عمر کے افراد کے لیے رضامندی کی عمر بھی یکساں کر دی گئی تھی۔ اس کےتحت طویل عرصے سے ہم جنس پرستانہ جنسی رویوں کے حامل افراد کے ماضی کے مجرمانہ ریکارڈ کو بھی ختم کر دیا گیا تھا۔

’محبت حلال ہے‘، برلن کی ایک مسجد کا برملا اعلان

چین

عوامی جموریہ چین میں ہم جنس پرستی کو قانونی طور پرجرم  قرار نہیں دیا گیا تاہم ہم جنس افراد کی آپس میں شادیوں کو مستقبل قریب میں بھی قانونی حیثیت ملنے کے کوئی امکانات نہیں۔ چین کے بڑے شہروں میں اگرچہ LGBTQ برادری بہت متحرک ہے، اس کے باوجود اسے معاشرے میں 'ایک بدنما داغ‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس برادری سے تعلق رکھنے والے چینی باشندوں کو بچوں کی نگہداشت یا ان کو اپنی تحویل میں رکھنے اور جائیداد وغیرہ کے قانونی حقوق بھی بہت کم میسر ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں چینی LGBTQ برادری کو بڑھتی ہوئی سنسرشپ کا سامنا بھی رہا ہے اور  سول سوسائٹی تک ان کی رسائی پر عمومی پابندیاں عائد رہی ہیں۔ گزشتہ برس بیجنگ حکومت کے دباؤ کے تحت اس برادری کے قانونی حقوق کے لیے سرگرم  ایک قومی سطح کی تنظیم کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔

ایشیا بحرالکاہل کے علاقے میں ایل جی بی ٹی کیو برادری سے متعلق مختلف قوانین اور رویے پائے جاتے ہیںتصویر: Ore Huiying/Getty Images

بھارت

بھارتی سپریم کورٹ نے 2018 ء میں ملکی قانون کی اس دفعہ کو ختم کر دیا تھا، جس کے تحت ایک ہی جنس کے افراد کے مابین جنسی تعلقات پر انہیں 10 سال تک کی سزا سنا دی جاتی تھی۔ اس تاریخی فیصلے کے باوجود ہم جنس پسند افراد کی باہمی شادیاں بھارت میں اب بھی غیر قانونی ہیں اور ہم جنس افراد کی آپس میں شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کیے جانے کی متعدد درخواستوں کو بھی حکومت کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران گرچہ بھارت میں ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کو کسی حد تک تسلیم کیا جانے لگا ہے، خاص طور سے بڑے شہروں میں، تاہم سماجی سطح پر اس بارے میں ابھی بھی بہت تعصب پایا جاتا ہے۔

انڈونیشیا

دنیا بھر میں سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا میں ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے بالغ افراد کے مابین جنسی تعلق غیر قانونی نہیں ہے۔ سوائے قدامت پسند صوبے آچے میں، جہاں شادی کے بندھن کو قانونی اور معاشرتی طور پر اسی وقت قبول کیا جاتا ہے، جب یہ شادی ایک مرد اور ایک عورت کی ہو۔ 250 ملین کی آبادی والے اس ملک میں ہم جنس پسند افراد کو ہراسانی اور ایذا رسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

جرمن پارلیمان پر قوس قزح پرچم لہرائے گا

جاپان

جاپان میں جنسی تنوع کی حمایت میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہاں ہم جنس پرستوں کی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو قانونی تحفظ کے فقدان کا سامنا ہے۔ انہیں اکثر و امتیازی سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ گھر ہو یا دفتر، یہاں تک کہ اسکولوں میں بھی، انہیں اس حد تک امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے کہ وہ اکثر اپنی اصلی جنسی شناخت اور ترجیحات کو چھپاتے ہیں۔ متعدد ہم جنس پسند جوڑوں نے قانونی طور پر شادی کرنے کے حق کا مطالبہ کرتے ہوئے درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں تاہم عدالتوں کے ایسے مقدمات میں  فیصلے تقسیم کا شکار ہیں۔ نیز  ہم جنس جوڑے مشترکہ وراثت کا حق بھی نہیں رکھتے اور انہیں ایک دوسرے کے بچوں پر بطور والدین بھی کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔ انہیں اکثر ہسپتالوں کے کمرے اور رہائشی اپارٹمنٹ کرائے پر لینے سے روک دیا جاتا ہے اور وہ سہولتیں اور خدمات جو شادی شدہ جوڑوں کو دستیاب  ہوتی ہیں، ہم جنس جوڑوں کو ان سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ جاپان کے تقریباً بارہ فیصد بلدیاتی ادارے ہم جنس جوڑوں کو پارٹنرشپ کے سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں۔ ٹوکیو کا بلدیاتی علاقہ شیبویا 2015ء میں ایسا کرنے والا پہلا بلدیاتی علاقہ تھا۔ اس کے باوجود یہ بلدیاتی ادارہ بھی ہم جنس پرست افراد کو ان کی آپس میں شادی کی کوئی قانونی دستاویز یا کوئی قانونی تحفظ فراہم نہیں کرتا۔

افغانستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی روپوشی پر مجبور

جاپان میں جنسی تنوع کی حمایت میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا جا رہا ہےتصویر: ROSLAN RAHMAN/AFP/Getty Images

ملائیشیا

ملائیشیا میں ہم جنس برستوں کے مابین جنسی تعلقات کے خلاف سخت قوانین رائج ہیں۔ ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 20 سال تک قید ہو سکتی ہے۔ ملائیشیا کے ایک سابق نائب وزیراعظم کو ایسے ہی الزامات میں عدالت نے 'بدکاری‘ کا مجرم قرار دے کر دو بار جیل بھیج دیا تھا۔ انہیں یہ سزائیں 2000ء اور پھر 2014 ء میں سنائی گئی تھیں۔ تاہم ناقدین کے مطابق ان دونوں مقدمات کے محرکات سیاسی تھے۔ ملائیشیا میں سیکولر عدالتوں کے متوازی مسلمانوں کے لیے ایک اسلامی عدالتی نظام بھی پایا جاتا ہے۔ اسلامی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں ہم جنس پرستوں کو اکثر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور جنسی تعلقات قائم کرنے کی کوشش پر پولیس کسی کو بھی گرفتار بھی کر سکتی ہے۔ ملائیشیا نے ایل جی بی ٹی کیو کی تشہیر کرنے والی فلموں کو سنسر کرنے اور ان پر پابندی عائد کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس طرز زندگی کی تشہیر کرنے والی فلموں، بشمول ڈزنی کی حالیہ اینیمیٹڈ فلم 'لائٹ ایئر‘ پر بھی اس ملک میں پابندی لگا دی جاتی ہے۔

ہم جنس پرستی کے خلاف بیان، انڈونیشی وزیر وضاحت پر مجبور

تھائی لینڈ

اس ملک کا شمار ایشیا کے آزاد خیال ممالک میں ہوتا ہے۔ وہاں ہم جنس پرست افراد کی برادری کے مسائل سے متعلق چار ایسے بل ایوان نمائندگان میں  ابتدائی طور پر منظور ہوئے، جو ہم جنس پرست جوڑوں کی شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کرنے یا ان کی سول پارٹنرشپ کومساوی حقوق ملنے سے متعلق تھے۔ اب ایک پارلیمانی کمیٹی انہیں ایک قانونی پیکج کی صورت میں یکجا کرنے کا کام کر رہی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ ارکان پارلیمان یہ بل بالآخر منظور کر لیں گے۔ اس کے بعد تھائی لینڈ جنوب مشرقی ایشیا کا ایسا پہلا ملک بن جائے گا، جہاں ہم جنس پرست افراد کے مابین جنسی تعلق اور ان کی آپس میں شادیوں تک کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔

ک م / م م (اے پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں