سنگاپور میں حکام نے ریکارڈ ہاتھی دانت اپنے قبضے میں لے لیے ہیں۔ یہ تقریبا تین سو ہاتھیوں سے حاصل کیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ بارہ ٹن وزنی پینگولین اسکیلز بھی پکڑ لیے گئے ہیں۔ ان کی مجموعی مالیت اڑتالیس ملین ڈالر بنتی ہے۔
اشتہار
سنگاپور حکام کے مطابق انہوں نے ملکی تاریخ میں ہاتھی دانت اسمگل کرنے کی سب سے بڑی کوشش ناکام بنا دی ہے۔ ایک کنٹینر کے ذریعے 8.8 ٹن ہاتھی دانت ویتنام اسمگل کیے جا رہے تھے۔ اسی کنٹینر سے 11.9 میٹرک ٹن پینگولین اسکیلز (فلس دار مور خور کی کھالیں) بھی پکڑے گئے ہیں۔
سنگاپور کے کسٹم حکام کا منگل کے روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''پکڑے جانے والے ہاتھی کے دانتوں اور پینگولین اسکیلز کو جلا دیا جائے گا تاکہ یہ جانوروں کی غیرقانونی مارکیٹ میں داخل نہ ہوں۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ یہ کنٹینر ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو سے آ رہا تھا اور اس کے بارے میں چینی حکام نے انہیں اطلاع فراہم کی تھی۔
دو ہزار پینگولین کی کھالیں
حکام کے مطابق ہاتھی دانت تین سو مختلف ہاتھیوں کے ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ہاتھی کے دانتوں کی تجارت پر پابندی عائد ہے کیوں کہ یہ حاصل کرنے کے لیے ہاتھیوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے جس سے ہاتھیوں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔
چین میں پینگولین کی طلب بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے اور اس جانور کی کھال روایتی ادویات کی تیاری میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ پنگولین کو فلس دار مور خور بھی کہا جاتا ہے اور اس کا تعلق چیونٹی خور جانوروں کی نسل سے ہے۔ سینگاپور حکام کے اندازوں کے مطابق جو اسکیلز پکرے گئے ہیں، وہ تقریبا دو ہزار پیگولین سے حاصل کیے گئے تھے۔ حکام نے ان کی مجموعی مالیت اڑتالیس اعشاریہ چھ ملین ڈالر بتائی ہے۔
رواں برس اپریل میں بھی سنگاپور حکام نے پانچ دنوں کے اندر 26 ٹن پینگولین اسکیلز پکڑے تھے۔ لیکن اتنے زیادہ ہاتھی دانت اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پکڑے گئے ہیں۔
ا ا / ش ح (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
خوبصورت دانت، ہاتھی کی جان کے دشمن
گزشتہ ایک عشرے میں ہاتھیوں کی تعداد میں 60 فیصد سے زیادہ کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ افریقہ میں گوشت اور ہاتھی دانت کے حصول کے لیے روزانہ اندازاً ایک سو ہاتھی ہلاک کیے جا رہے ہیں۔ ہاتھیوں کے رہنے کی جگہیں بھی کم ہوئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/M. Hicken
مسلسل کم ہوتی تعداد
کوئی ایک صدی پہلے افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد ایک کروڑ تھی۔ آج افریقی ہاتھیوں کی تعداد ساڑھے چار لاکھ اور سات لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے جبکہ ایشیا میں جنگلی ہاتھیوں کی تعداد پینتیس اور چالیس ہزار کے درمیان ہے۔ گزشتہ ایک عشرے میں ہاتھیوں کی مجموعی تعداد میں باسٹھ فیصد کمی کے پیشِ نظر ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگلے دَس برسوں کے اندر اندر ہاتھی تقریباً معدوم بھی ہو سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Harding
ہاتھی دانت کی قیمتیں آسمان سے جا لگیں
ہلاک ہونے والے افریقی ہاتھیوں کے دانت زیادہ تر ایشیائی منڈی میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں چین میں آئیوری (ہاتھی دانت) کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس سے ہاتھیوں کو ہلاک کرنے کا رجحان بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ اسی سال جولائی میں زیورخ ایئر پورٹ پر 262 کلوگرام ہاتھی دانت پکڑا گیا۔ آٹھ سوٹ کیسوں میں بند یہ ہاتھی دانت تین چینی مسافروں کے پاس سے بے ترتیب تلاشی کے دوران برآمد ہوا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Sprich
ہاتھی دانت خونریز تنازعات کا سبب
خیال کیا جاتا ہے کہ منشیات اور انسانوں کی تجارت کے بعد جنگلی حیات کی تجارت تیسرا بڑا غیر قانونی کاروبار ہے۔ ہاتھی دانت کا غیر قانونی کاروبار براعظم افریقہ میں گونا گوں تنازعات کا باعث بن رہا ہے۔ مثلاً الشباب، لارڈز ریزسٹنس آرمی اور بوکو حرام جیسی شدت پسند تنظیمیں ہاتھی دانت بیچ کر ہتھیار خرید رہی ہیں۔ چین کی بلیک مارکیٹ میں ایک پاؤنڈ آئیوری ایک ہزار ڈالر (903 یورو) میں خریدی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/African Parks
ہاتھیوں کے ساتھ پُر امن بقائے باہمی
بین الاقوامی سطح پر ہاتھی دانت کی تجارت پر پابندی کے باوجود ہاتھیوں کو بڑی تعداد میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایس اور ایس ایلیفینٹس جیسی تنظیموں کے مطابق مقامی کمیونٹیز کو یہ سمجھانا بہت ضروری ہے کہ افریقہ کے ایکو سسٹم (ماحولیاتی نظام) کے لیے ہاتھی کتنی اہمیت کے حامل ہیں اور کیسے وہ ایکو ٹورازم (ماحولیاتی سیاحت) اور مشترکہ کاشتکاری تکنیکس کی مدد سے روزگار بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa-Zentralbild
ہاتھیوں کے رہنے کی جگہیں کم ہوتی ہوئی
غیر قانونی شکار کے علاوہ ہاتھیوں کو یہ بڑا مسئلہ بھی درپیش ہے کہ ان کے رہنے کی جگہیں مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ چند عشروں کے اندر اندر افریقہ میں انسانی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور یوں ہاتھیوں کے لیے جگہ مزید تنگ ہو گئی ہے۔ زرعی زمین یا چراگاہوں کے لیے بڑے رقبے پر پھیلے جنگلات صاف کر دیے گئے ہیں۔ کچھ ہاتھی پکڑ کر سدھا لیے گئے ہیں اور اُنہیں لکڑیوں کی غیر قانونی تجارت میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
امید کی کرن؟
اس سال جولائی کے اواخر میں امریکی صدر باراک اوباما نے ایسے منصوبوں کا اعلان کیا، جن کا مقصد امریکا میں ہاتھی دانت کی زیادہ تر تجارت پر مؤثر پابندی عائد کرنا ہے اور اس کی برآمدات کے سلسلے میں نئی پابندیاں متعارف کروانا ہے۔ واضح رہے کہ چین کے بعد امریکا ہاتھی دانت کی دوسری بڑی منڈی ہے۔ چین نے بھی اپنی مقامی منڈیوں میں آئیوری کی تجارت پر پابندیوں کا عزم ظاہر کیا ہے۔