1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنی شدت پسندوں کی پیش قدمی، ایرانی جنرل عراق میں

عاطف توقیر17 جون 2014

ایران کی القدس فورسز کے ایک جنرل عراق پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ سنی شدت پسندوں کی کارروائیوں کے تناظر میں بغداد حکومت سے صلاح مشورے میں مصروف ہیں۔ ادھر امریکا نے ایران سے اپیل کی ہے کہ وہ ’فرقہ واریت‘ سے دور رہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک ایسے موقع پر جب سنی شدت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ اِن عراق اینڈ شام ISIS کے جنگجوؤں کی پیش قدمی جاری ہے، القدس فورسز کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی عراق پہنچ گئے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ اس سے عراقی بحران میں ایران کی گہری ہوتی دلچسپی اور ممکنہ شمولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

آئی ایس آئی ایس نے پیر کے روز شامی سرحد کے قریب واقع اسٹریٹیجک اہمیت کے شہر تل افر پر قبضہ کر لیا تھا۔ اب اس علاقے میں شامی سرحد کے دونوں جانب اس گروپ کا کنٹرول ہے۔ پیر کے روز بغداد کے مغرب میں فلوجہ کے قریب شدت پسندوں نے ایک فوجی ہیلی کاپٹر بھی مار گرایا۔ اس واقعے میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔

سلیمانی کی بغداد آمد سے طویل عرصے سے گردش کرنے والی ان خبروں کی بھی ایک طرح سے تصدیق ہوتی ہے، جن میں عراق کے سنی رہنما یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم نوری المالکی کے تہران کے ساتھ تعلقات نہایت گہرے ہیں۔

شدت پسندوں کی پیش قدمی کے تناظر میں مقامی ملیشیا بھی فوج کے ساتھ مل کر شدت پسندوں کے خلاف لڑ رہی ہےتصویر: Reuters/Alaa Al-Marjani

دریں اثناء امریکا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ عراق کے مسئلے پر تہران حکومت سے بات چیت پر غور کر رہا ہے۔ واشنگٹن حکام کے مطابق سلیمانی کے دورہ بغداد سے قبل امریکا کو مطلع کر دیا گیا تھا۔ سلیمانی اپنے اس دورے میں عراقی دفاعی صلاحیتوں کے معائنے کے ساتھ ساتھ باغیوں کے پیش قدمی روکنے کے حکومتی منصوبوں کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے بغداد کے جنوب میں نجف اور کربلا کے علاقوں کے دورے کے ساتھ ساتھ عراق کے مغربی حصے کا دورہ بھی کیا، جہاں حکومتی فورسز گزشتہ کئی مہینوں سے سنی شدت پسندوں کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ انہوں نے شیعہ ملیشیا اور عراقی سکیورٹی فورسز کے درمیان رابطے کے لیے ایک آپریشن روم کا قائم بھی کیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وزیراعظم نوری المالکی نے فرقہ واریت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے چند سنی علماء سے بھی شدت پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے بیانات حاصل کیے ہیں، تاہم عراق میں سنی مسلمانوں کی کوئی بڑی تعداد اس جنگ میں براہ راست شامل ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

دوسری جانب امریکا نے پیر کے روز اپنے روایتی حریف ایران سے استدعا کی ہے کہ عراقی بحران کے حل کے لیے ایسا کردار ادا کرے، جو فرقہ ورانہ بنیادوں پر نہ ہو۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ماضی میں امریکا کی یہ کوشش رہی ہے کہ عراق میں تہران حکومت کا اثرورسوخ پیدا نہ ہو، تاہم گزشتہ ہفتے شدت پسند سنی گروہ کی پے در پے کارروائیوں اور کامیابیوں کے بعد واشنگٹن حکومت کو بھی تہران کی جانب دیکھنا پڑا۔

پیر کو امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ امریکا عراق کی صورتحال پر اس کے ہمسایہ ممالک بشمول ایران بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اے ایف پی کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت آئی ایس آئی ایس کی پیش قدمی روکنے کے لیے فضائی حملوں پر غور کر رہی ہے اور اس سلسلے میں صدر اوباما پیر کے روز اعلان کر سکتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں