سن 2016 شامی بچوں کے لیے بدترین ثابت ہوا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس سال 652 بچے ہلاک ہوئے جبکہ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اس چھ سالہ تنازعے کی وجہ سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر گئی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے پی نے اقوام متحدہ کے حوالے سے تیرہ مارچ پیر کے دن بتایا کہ چھ سالہ شامی خانہ جنگی کے دوران سن دو ہزار سولہ کا سال بچوں کے لیے انتہائی بدترین ثابت ہوا۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ شامی جنگ کے دوران اطراف کی لڑائی میں اسکول، بچوں کی کھیلنے کی جگہیں، پارک اور گھر بھی محفوظ نہ رہے۔ اس ادارے کے مطابق اس بحران میں عالمی جنگی قوانین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
یونیسیف کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس 255 بچے اسکولوں یا دیگر تعلیمی اداروں کے قریب ہلاک ہوئے جبکہ 1.7 ملین بچے تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس خانہ جنگی کی وجہ سے ہر تین میں سے ایک اسکول قابل استعمال نہیں رہا۔ کئی اسکول تباہ ہو چکے ہیں جبکہ کچھ میں جنگجوؤں نے اپنے ٹھکانے بنا لیے ہیں۔ اس کے علاوہ دو اعشاریہ تین ملین شامی بچے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں مہاجرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق درجنوں بچے ایسی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں، جن کا علاج ممکن ہے۔
یونیسیف نے اپنی اس رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ شام کی نئی نسل کے لیے تعلیمی اور طبی سہولیات بہت تیزی سے ختم ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے یہ بچے چائلڈ لیبر یا کم عمری کی شادیوں کا شکار بن رہے ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ اس صورتحال میں بچوں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی راہ بھی ہموار ہو رہی ہے۔ یونیسیف کے مطابق گزشتہ برس مختلف جنگجو گروہوں نے 851 بچوں کو بھرتی کیا۔ یہ تعداد سن دو ہزار پندرہ کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔
شامی مہاجر بچے زندگی کس طرح گزار رہے ہيں؟
شامی خانہ جنگی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے والے قريب 4.8 ملين افراد ميں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ يورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم مہاجر کيمپوں ميں پرورش پانے والے ان بچوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
بے بسی اور معصوميت کا ملاپ
شمالی يونانی شہر اڈومينی کے قريب مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر ايک بچہ ريلوے ٹريک پر کھيل رہا ہے۔ بلقان روٹ کی بندش کے بعد اڈومينی کے مہاجر کيمپ ميں ہزاروں مہاجرين پھنس گئے ہيں۔ اقوام متحدہ اور کئی امدادی تنظيموں کی جانب سے بارہا خبردار کيا جا رہا ہے کہ علاقے ميں مسلسل بارشوں اور سرد موسم کے سبب حالات انتہائی خراب ہيں اور بچوں ميں کئی اقسام کی بيمارياں پيدا ہونے کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki
پيٹ کی خاطر
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ايک شامی بچہ روٹی ليے بھاگ رہا ہے۔ ايتھنز حکومت بارہا تنبيہ کر چکی ہے کہ بلقان روٹ کی بندش کے سبب يونان ميں اڈومينی کے مقام پر پھنسے ہوئے پناہ گزينوں کی تعداد ايک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے ميں کھانے پيشے کی اشياء کی خاطر لڑائی جھگڑے عام ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff
بے بسی اور بد حالی کی تصوير
لبنان کے دارالحکومت بيروت کے نواح ميں ايک مہاجر خاتون سڑک کے کنارے بيٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھيل رہی ہے۔ لبنان ميں تقريباً ايک اعشاريہ دو ملين سے زائد پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں بچوں کی شرح 53 فيصد ہے۔ سيو دا چلڈرن نامی ادارے کے مطابق لبنان ميں 313,000 بچوں کو انسانی بنيادوں پر فوری مدد درکار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi
بے يار و مددگار
استنبول کے قريب موٹر وے پر حکام کی جانب سے روکے جانے پر ايک غير قانونی تارک وطن کے ہاتھوں ميں بچہ بے ساختہ رو پڑا۔ گزشتہ برس ستمبر کے بعد مہاجرين کے بحران کے عروج پر ہزاروں تارکين وطن استنبول سے اڈيرن شہر کی جانب پيش قدمی کيا کرتے تھے۔ یورپ میں تارکین وطن کا بحران شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
ايک خواب جو پورا نہ ہو سکا
ترک شہر استنبول ميں شامی بچوں کے ليے ايک اسکول۔ اگرچہ ترکی ميں ہزارہا شامی بچے اسکول جا رہے ہيں تاہم اب بھی لاکھوں کو يہ بنيادی سہولت ميسر نہيں۔ اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق ايجنسی نے اسی ہفتے جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ اس وقت تقريباً تين ملين شامی بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہيں۔
تصویر: DW/K. Akyol
ہر حال ميں گزارا
اس تصوير ميں ايک شامی تارک وطن خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ بيٹھے کھانا پکا رہی ہے۔ لبنان ميں جبل الشوف کے پہاڑی سلسلے کے قريب واقع کترمایا نامی گاؤں ميں شامی پناہ گزينوں کا ايک کيمپ قائم ہے۔ پس منظر ميں برفباری ديکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
ہر دن ايک نئی صبح
شامی شہر کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد مہاجرين کے بچے عارضی خيمے لگا رہے ہيں۔ آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے ایک شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
مہاجرين کی صفوں ميں شامل تنہا بچے
جرمن دارالحکومت برلن کے ايک اسکول کے اسپورٹس ہال ميں قائم مہاجر کيمپ کا ايک منظر، جہاں ايک بچہ بستروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن ميں ستر ہزار کے لگ بھگ تنہا بچے بھی شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
مہاجرين ميں کتنے بچے شامل
پچھلے چند مہينوں کے دوران يورپ پہنچنے والے تارکين وطن ميں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کیا تھی۔
9 تصاویر1 | 9
دوسری طرف سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ اس چھ سالہ تنازعے کی وجہ سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تین لاکھ بیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق البتہ شام میں جنگ بندی کے کمزور معاہدے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے لیکن پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ شامی حکومت اور باغی اس سیزفائر کی خلاف ورزی کا الزام ایک دوسرے پر دھرتے ہیں۔
لندن میں قائم شامی غیر سرکاری ادارے سیریئن آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان نئے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں چھیانوے ہزار شہری ہیں، جن میں سترہ ہزار چار سو بچے اور گیارہ ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شامی تنازعے کے دوران مجموعی طور پر ساٹھ ہزار نو سو شامی فوجی بھی مارے جا چکے ہیں جبکہ شامی ملیشیا گروپوں کے 45 ہزار جنگجو بھی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
ان نئے اعداد و شمار کے مطابق شامی خانہ جنگی کے دوران اب تک صدر بشار الاسد کے حامی آٹھ ہزارغیر ملکی فائٹرز بھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس جنگ کے باعث پچپن ہزار کے قریب جہادی بھی مارے گئے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں باغی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ رامی عبدالرحمان کی طرف سے جاری کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق چار ہزار ایسے افراد بھی مارے گئے ہیں، جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔
شام میں مارچ سن دو ہزار گیارہ میں صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو جلد ہی ایک بھرپور خانہ جنگی میں بدل گیا تھا۔ عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ وہ اس بحران کا پرامن حل تلاش کر لیں۔ اس مقصد کے لیے مشرق وسطیٰ کے ممالک سمیت مغربی طاقتیں امن مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔