سن 1965 کی جنگ: پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کا سبب؟
6 ستمبر 2023متعدد مؤرخین کے نزدیک سن 1965 کی پاک بھارت جنگ نے نہ صرف دونوں پڑوسیوں کے سیاسی و سماجی تعلقات کو بری طرح متاثر کیا بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ان کے مطابق پاکستان آج جس معاشی بحران کا شکار ہے اس کی جڑیں 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پیوست ہیں۔
جب پاکستان کی مثالی معاشی پرواز کو بریک لگ گئی
اسٹاک ہولم یونیورسٹی سے وابستہ تاریخ کے پروفیسر اور نامور مصنف ڈاکٹر اشتیاق احمد کی معروف کتاب 'پاکستان دی گیریزن سٹیٹ' اس موضوع کا تفصیلی احاطہ کرتی ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ" 1965 کی جنگ پاکستان کی بھیانک ترین غلطی تھی۔"
پینسٹھ کی جنگ کے پچاس سال اور آج کی صورت حال
وہ کہتے ہیں "تقسیم کے بعد بھارت کی معاشی پالیسیاں بائیں بازو سے وابستہ اقتصادی نظریات کی طرف واضح جھکاؤ رکھتی تھیں۔ روس اور امریکہ کے درمیان کشمکش عروج پر تھی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ بھارت کسی ایک بلاک میں جانے کو تیار نہیں امریکہ نے پاکستان پر اپنی خصوصی نوازشات کیں، جس کا نمایاں ترین پہلو پاکستان کو ایک ایسی مضبوط اقتصادی طاقت بنانا تھا جس کی معاشی پالیسیاں سرمایہ دارانہ نظام پر استوار ہوں۔ "
امریکی پالیسی کا دوسرا پہلو خطے میں کسی مضبوط دفاعی شراکت دار کی تلاش تھی۔
نہرو نے امریکی صدر آئزن ہاور کی دفاعی ساز و سامان کی پیشکش ٹھکرا دی جس کے بعد کراچی میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان 19 مئی 1954 کو باہمی دفاع کے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے پاکستان آرمی کو فوجی ساز و سامان فراہم کرنے اور عسکری تربیت دینے پر اتفاق کیا تھا۔"
نئی پاک بھارت جنگ کا حالیہ خطرہ ’امریکی مداخلت سے ٹلا‘
'پاکستانز ڈیفینس پالیسی' کے نام سے شائع ہونے والی اپنی کتاب میں پولیٹیکل سائنٹسٹ پروفیسر پرویز اقبال چیمہ لکھتے ہیں، 1954" کے معاہدے کے بعد ابتدائی طور پر پاکستان کی مسلح افواج کے لیے 29.5 ملین ڈالر کی رقم کا اعلان کیا گیا۔ ایوب خان خوش نہ تھے کہ یہ امداد بہت کم ہے۔ بعد میں اسے بڑھا کر 171 ملین ڈالر کر دی گئی جس کا دورانیہ تین برس رکھا گیا۔"
پروفیسر اشتیاق احمد ڈوئچے ویلے کو بتاتے ہیں کہ "امریکہ نے بھارت کو یقین دلایا تھا کہ یہ فوجی ساز و سامان اس کے خلاف استعمال نہیں ہو گا۔ 1965 کی جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان کو سرمایہ دارانہ معاشی طاقت بنانے کے منصوبے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس سے پہلے پاکستان اسی ماڈل پر رواں تھا جس پر بعد میں امریکہ کی مدد سے تائیوان جیسے ممالک نے ترقی کی۔ پاکستان ایک مثالی اقتصادی ماڈل کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا، 1965 کی جنگ سے پاکستان کی مثالی معاشی پرواز کو بریک لگ گئی۔"
پاکستان نے ایک بہترین تجارتی شراکت دار کھو دیا
پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ دنوں ایک نجی ٹیلی وژن چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ "موجودہ صورتحال میں بھارت سے تجارت کی بات نہیں کی جا سکتی۔"
خیال رہے دونوں ممالک کے درمیان اگست 2019 سے دو طرفہ تجارتی تعلقات تعطل کا شکار ہیں۔1965 کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے۔
بھارت کے پاکستان سے تعلقات کے نام سے شائع ہونے والے اپنے تحقیقی مقالے میں مصنف ڈیوڈ سکاٹ لکھتے ہیں کہ 1965 کی جنگ کے نتیجے میں پاکستان اپنے ایک بہترین تجارتی شراکت دار سے محروم ہو گیا۔ "دونوں ملکوں کے درمیان عملی طور پر نو برس تجارت معطل رہی، جس کا نقصان پاکستان کو ہوا۔"
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے "پاک بھارت تعلقات: 1965 سے قبل اور اس کے بعد"کے موضوع پر تحقیق کرنے والی پی ایچ ڈی سکالر اقصیٰ منہاس نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"مئی 1948 میں دونوں ممالک کے درمیان پہلا تجارتی معاہدہ ہوا جس کے بعد بھارت پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن کر ابھرا۔ پاکستان اپنی سب سے اہم پیدوار خام پٹ سن کا 71 فیصد اور خام کپاس کا 50 فیصد سے زائدبھارت کو برآمد کرنے لگا، جبکہ بدلے میں اسے اپنی درآمدات کا بیشتر حصہ بھارت سے ملنے لگا جس میں خام کوئلہ، تیارشدہ سوتی کپڑے اور پٹ سن شامل ہیں۔ بحیثیت مجموعی 60 فیصد پاکستانی برآمدات بھارت کو جا رہی تھیں جبکہ پاکستان کی درآمدات کا 43 فیصد بھارت سے پورا ہو رہا تھا۔ "
پاکستان اور بھارت کی درسی کتب میں ’تقسیم ہند کی جنگ‘
وہ مزید بتاتی ہیں،"تھوڑے بہت فرق سے یہ سلسلہ چلتا رہا مگر 1965 کی جنگ نے صورت حال یکسر بدل دی۔ بعد میں حالات معمول پر آئے مگر پہلے جیسے تجارتی تعلقات کبھی نہ پنپ سکے۔ نتیجہ یہ کہ بھارت اپنی برآمدات دوسرے ممالک کو کو برآمد کرتا ہے اور ہم وہی اشیاء مہنگے داموں اپنے ملک میں درآمد کرتے ہیں۔ دنیا کی پانچویں بڑی اقتصادی طاقت سے تجارتی تعلقات بگاڑ کر ہم اپنی معیشت کیسے بہتر کر سکتے ہیں؟"
لاہور اعلامیہ ایک بہترین دستاویز ہے
پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات اور معاہدے کئی بار ہوئے مگر پائیدار روابط کی بحالی ممکن نہ ہو سکی۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا،" 1965 کے بعد دونوں ممالک کے درمیان امن کی سب سے بہترین کوشش واجپائی کا دورہ پاکستان تھا۔ لاہور اعلامیہ ایک بہترین دستاویز ہے جس پر دونوں ممالک نے دستخط کیے، دونوں ممالک کی پارلیمان نے اس کی توثیق کی، انہی خطوط پر بعد میں مشرف نے پیش رفت کی کوشش کی۔ آج بھی یہ معاہدہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔"
پاکستان اور بھارت تنازعات حل کریں، پرویز مشرف
ڈاکٹر اشتیاق احمد اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں " 1965سے پہلے کے پاک بھارت تعلقات کی جھلک شاید ہم نہ دیکھ سکیں، جب سرحد کے دوسری طرف جانا کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا، جب جوائنٹ ڈیفینس کی بات ہو رہی تھی۔ بعد میں تلخی رہی مگر تعلقات ایسے بند گلی میں نہ پہنچے تھے جیسے آج ہیں۔ "
ڈاکٹر اشتیاق احمد کہتے ہیں،"کیا اچھا ہوتا ایشیا کپ کے میچز پاکستان میں ہو رہے ہوتے،بھارت کی ٹیم لاہور میں کھیلتی۔ جنگ اور دشمنی کی فضا سے بالآخر باہر نکلنا ہی ہے۔ لیکن کب، کوئی نہیں جانتا۔ مگر یہ جتنا جلد ہو اتنا بہتر ہے، پورے خطے کے لیے، بھارت کے لیے اور بالخصوص پاکستان کے لیے بھی۔"