1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سن 2012 میں ریکارڈ تعداد میں افغان فوجی مارے گئے

31 دسمبر 2012

آج ختم ہوتے ہوئے سال 2012ء میں بد امنی کے شکار ملک افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے سینکڑوں مسلح حملوں میں مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد افغان فوجی مارے گئے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغان حکام نے بتایا ہے کہ یہ تعداد ہندو کُش کی اس ریاست میں کئی سال پہلے طالبان کی مسلح مزاحمت کے آغاز سے اب تک کی سب سے بڑی سالانہ تعداد ہے۔ افغان وزارت دفاع کے ترجمان جنرل محمد ظاہر عظیمی نے کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ اس سال کے آخری نو مہینوں کے دوران طالبان کے مزاحمت کاروں کے حملوں میں افغان فوج کے 906 اہلکار مارے گئے۔ مجموعی طور پر 2012ء کے دوران ان ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار 56 رہی۔

افغان فوجی دستے ملک کے 75 فیصد سے زائد علاقے میں سلامتی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنا قائدانہ کردار سنبھال چکے ہیںتصویر: REUTERS

جنرل ظاہر عظیمی کے بقول افغان سکیورٹی فورسز کو ان ہلاکتوں کی صورت میں جو جانی نقصان برداشت کرنا پڑا، اس کی وجہ یا تو عسکریت پسندوں کے حملے بنے یا پھر طالبان باغیوں کے ساتھ ہونے والی خونریز جھڑپیں۔ انہوں نے اس امر کا اعتراف کیا کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں افغانستان میں ملکی فوج کو پہنچنے والے اس جانی نقصان میں اضافہ ہوا ہے۔

کابل سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں سلامتی کی ذمہ داریاں اس وقت بتدریج ملکی سکیورٹی فورسز کو منتقل کی جا رہی ہیں۔ وہاں ابھی تک موجود بین الاقوامی فوجی دستوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ اس بین الاقوامی فوج میں شامل امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک لاکھ کے قریب لڑاکا فوجیوں کا افغانستان سے انخلاء 2014ء میں مکمل ہو جائے گا۔

آیا ان حالات میں افغانستان میں اگلے دو سال کے بعد کسی نئی خونریز خانہ جنگی کا راستہ روکا جا سکے گا، اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ کیا افغانستان کی اپنی نفری میں مسلسل پھلتی پھولتی ملکی فوج اس قابل ہے کہ طالبان کی مسلح بغاوت اور عسکریت پسندوں کے ہلاکت خیز حملوں کو ناکام بنا سکے۔

جنرل ظاہر عظیمی کے بقول افغان فوجی دستے ملک کے 75 فیصد سے زائد علاقے میں سلامتی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنا قائدانہ کردار سنبھال چکے ہیں تاہم انہیں ابھی بھی زیادہ بہتر عسکری ساز و سامان اور بارودی سرنگوں کے خلاف مؤثر تحفظ کی ضرورت ہے۔

گزشتہ برسوں کے مقابلے میں افغانستان میں ملکی فوج کو پہنچنے والے اس جانی نقصان میں اضافہ ہوا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا ارادہ ہے کہ 2014ء کے آخر میں اتحادی فوج کے جنگی دستوں کا انخلاء مکمل ہونے تک افغان نیشنل آرمی اور پولیس کے ساڑھے تین لاکھ تک ارکان کی تربیت کا عمل مکمل ہو جائے تاہم تبدیلی کی اس عبوری مدت کے دوران بڑا چیلنج ثابت ہونے والے حالات و واقعات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔

افغان آرمی اور نیٹو کے فوجی کمانڈروں کے لیے جو باتیں پریشانی کا سبب بن رہی ہیں، ان میں سے سکیورٹی فورسز کے ارکان کا بھگوڑے ہو جانا، دوبارہ بھرتی کی غیر تسلی بخش شرح اور افغان دستوں کو کم تر مورال زیادہ بڑے مسائل ہیں۔ افغانستان میں سال رواں کے دوران خود افغان اہلکاروں کی طرف سے ان کے نیٹو دستوں کے رکن ساتھیوں پر کیے جانے والے حملوں میں 60 سے زائد غیر ملکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایسے مسلح واقعات ’insider حملے‘ کہلاتے ہیں اور انہوں نے مقامی اور غیر ملکی فورسز کے مابین اعتماد کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔

افغانستان میں اتحادی فوجی دستوں کی کارروائی کے نتیجے میں طالبان کو 2001ء میں اقتدار سے نکال دیا گیا تھا۔ تب سے طالبان صدر حامد کرزئی کی سربراہی میں قائم اور امریکا کی حمایت یافتہ کابل حکومت کے خلاف اپنی وہ مسلح مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں، جو اپنے 11 سال مکمل کر چکی ہے۔

(mm / ah (AFP

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں