1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سن 2014 صحافیوں کے لیے خونریز سال رہا

عاطف بلوچ31 دسمبر 2014

سال 2014 کے دوران ٹارگٹ کلنگ، بم حملوں اور فائرنگ کے متعدد واقعات میں مجموعی طور پر 118 صحافی ہلاک ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ایسی ہلاکتوں کی تعداد چودہ بنتی ہے۔

تصویر: DW/M. Mamun

صحافیوں کے عالمی ادارے اںٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے کہا ہے کہ سن 2014 صحافیوں کے لیے خطرناک ترین سال رہا ہے۔ اس ادارے کی طرف سے منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس برس اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

سال 2014 کے دوران دنیا بھر میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات میں مجموعی طور پر 118 صحافی مارے گئے جب کہ سن 2013 کے دوران ٹارگٹ کلنگ، بم حملوں، فائرنگ اور دیگر پرتشدد واقعات میں مارے جانے والے صحافیوں کی تعداد 105 تھی۔ آئی ایف جے کے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار چودہ کے دوران سترہ صحافی اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوئے قدرتی آفات یا دیگر حادثات کی وجہ سے بھی مارے گئے۔

2014ء میں پاکستان کے معروف صحافی حامد میر پر بھی ناکام قاتلانہ حملہ کیا گیاتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

برسلز میں قائم اںٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے کہا ہے کہ سال 2014ء پاکستانی صحافیوں کے لیے خونریز ترین ثابت ہوا، جہاں اس برس کے دوران چودہ صحافی ہلاک ہوئے۔ دوسرے نمبر پر شورش زدہ ملک شام ہے، جہاں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد بارہ بنتی ہے۔

آئی ایف جے نے مزید کہا ہے کہ افغانستان اور فلسطینی علاقوں میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے نو نو صحافی ہلاک ہوئے جب کہ عراق اور یوکرائن میں ان ہلاکتوں کی تعداد آٹھ آٹھ رہی۔

ان ہلاک شدگان میں امریکی صحافی جیمز فولی اور اسٹیون سوٹلوف بھی شامل ہیں، جنہیں سنی انتہا پسند اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں نے عراق و شام کے علاقوں سے اغوا کر کے مار ڈالا تھا۔ شدت پسندوں نے ان صحافیوں کے سر قلم کر کے انہیں ہلاک کیا تھا۔

اںٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے ایک برس کے دوران ہی اتنے زیادہ صحافیوں کے ہلاک ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ صحافی کمیونٹی کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر خصوصی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرروت ہے۔

صحافیوں کی اس اہم تنظیم آئی ایف جے کے صدر جِم باؤمیلا نے کہا، ’’صحافیوں کو درپیش خطرات کے تناظر میں یہ ایکشن کا وقت ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس کمیونٹی کے ممبران کو تاوان کی خاطر بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ سیاسی مراعات حاصل کرنے کے لیے بھی انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جِم باؤمیلا نے مزید کہا کہ انہی خطرات کے تناظر میں کچھ میڈیا ادارے اپنے کارکنوں کو جنگ زدہ علاقوں میں بھیجنے سے بھی کتراتے ہیں۔ ان کے بقول اگر صحافیوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو بالخصوص جنگ زدہ اور تنازعات کا شکار علاقوں سے آزاد معلومات کی فراہمی متاثر ہو گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں