ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اکتیس دسمبر کو ختم ہونے والے سال 2017 میں اکیاسی صحافیوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ یہ رپورٹ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے جاری کی ہے۔
اشتہار
دنیا بھر میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی سالانہ رپورٹ ’کِل رپورٹ‘ کا اجراء کر دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں صحافتی فرائض کے دوران سن 2017 کے دوران مجموعی طور پر81 صحافی ہلاک ہوئے۔ گزشتہ برس سن 2016 میں مارے جانے والے صحافیوں کی تعداد 93 تھی۔
اس رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ان صحافیوں میں سے کئی نشانہ بنا کر بھی ہلاک کیے گئے جب کہ چند ایک بم پھٹنے سے بھی اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اس کے علاوہ دو طرفہ فائرنگ کی لپیٹ میں بھی آ کر صحافیوں نے اپنی زندگی کی بازی ہاری۔ یہ بھی بتایا گیا کہ کئی صحافیوں کو پرتشدد تنظیموں نے اغوا کر کے بھی ہلاک کیا۔
صحافیوں کی یہ بین الاقوامی تنظیم اپنی سالانہ بنیاد پر جاری کی جانے والی ’کِل رپورٹ‘ میں صحافیوں کی جن حالات میں موت واقع ہوتی ہے، اُسں کی تفصیل بھی شائع کرتی ہے۔ اس سالانہ رپورٹ کے مطابق مختلف پرتشدد واقعات میں زخمی ہونے والے صحافیوں کی تعداد 250 سے زائد ہے۔
صحافیوں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ جمعرات 28 دسمبر کو افغان دارالحکومت کابل میں شیعہ کلچرل سینٹر پر کیے گئے خودکش حملے میں بھی ایک صحافی کی موت ہوئی ہے لیکن اس کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران 81 صحافیوں کی ہلاکت گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہونے والی سب سے کم ہلاکتیں ہیں۔ انٹرنیشنل فیڈریشن فار جرنلسٹس کے صدر فلپ لیروتھ کا کہنا ہے کہ صحافیوں کی ہلاکتوں میں کمی ضرور ہوئی ہے لیکن اِس طبقے کو اب بھی پرتشدد صورت حال کا سامنا ہے۔
’کِل رپورٹ‘ کے مطابق سب سے زیادہ صحافی یعنی تیرہ میکسیکو میں مارے گئے اور ان کی ہلاکت کے پس پردہ وہاں کی ڈرگز مافیا کو خیال کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد گیارہ ہے۔ اس طرح میکسیکو کے بعد افغانستان صحافیوں کے خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔
خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں دس اور بھارت میں چھ صحافیوں کو اپنی زندگی ہارنا پڑی۔ فلپائن اور پاکستان میں چار چار صحافیوں کو مختلف واقعات میں ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا۔ افریقی ممالک نائجیریا اور صومالیہ کے علاوہ لاطینی لامریکی ملک ہنڈوراس میں تین تین صحافی پرتشدد واقعات میں مارے گئے۔
’صحافت کی آزادی‘ کے شکار صحافی
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔