ليبيا کے قريب سمندر ميں کشتی ڈوبنے کے ايک واقعے ميں کم از کم پچيس تارکين وطن کی ہلاکت کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ اطالوی کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ ڈوبنے والوں میں سے پچاسی افراد کو بچا لیا گیا ہے۔
اشتہار
جرمن امدادی تنظيم ’سی واچ‘ نے ہفتے کے روز ٹوئٹر پر جاری کردہ ايک پيغام ميں لکھا ہے، ’’ليبيا کے دارالحکومت طرابلس کے شمال ميں ربڑ کی ايک کشتی ڈوبنے کے واقعے ميں کم از کم پچيس افراد ہلاک ہو گئے ہيں۔ مرنے والوں کی حتمی تعداد فی الحال واضح نہيں۔ اطالوی بحريہ جائے وقوعہ پر موجود ہے۔‘‘ اطالوی کوسٹ گارڈز نے خبر رساں ادارے اے ايف پی کو مطلع کيا ہے کہ پچاسی مہاجرين کو ڈوبنے سے بچا ليا گيا جبکہ اب تک ڈوبنے والے آٹھ تارکين وطن کی لاشيں بھی نکالی جا چکی ہيں۔ دو مختلف امدادی تنظيموں کے مطابق اس کشتی پر تقريباً ڈيڑھ سو تارکين وطن سوار تھے۔
کہا جا رہا ہے کہ امکاناً يہ سن 2018 ميں مہاجرين کی کشتی ڈوبنے کا پہلا بڑا واقعہ ہے۔ تاہم امدادی اداروں کے مطابق يورپ کے سفر پر گامزن کئی چھوٹی کشتياں بحيرہ روم ميں غرق ہو جاتی ہيں اور ان کے بارے ميں کچھ پتا نہيں چلتا۔
ہفتے کے روز ڈوبنے والی اس کشتی کے بارے ميں اطلاع يورپی يونين کے اينٹی ٹريفکنگ مشن صوفيہ کے نگرانی پر مامور ايک فضائی جہاز نے دی۔ بتايا گيا ہے کہ کوسٹ گارڈز اور بحريہ کی کشتياں اس وقت بھی ريسکيو کارروائيوں ميں مصروف ہيں۔
سال نو کے پہلے چھ دنوں ميں تقريباً چار سو شمالی افريقی تارکين وطن کو ريسکيو کر کے اٹلی پہنچايا جا چکا ہے جبکہ پچھلے سال اسی عرصے ميں يہ تعداد 729 تھی۔ سن 2017 ميں يورپ تک پہنچنے کی کوششوں کے دوران کم از کم 3,116 مہاجرين بحيرہ روم ميں ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔