سن 2023 میں امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ
30 جنوری 2024
گزشتہ برس بیرونی ممالک کے لیے امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور یہ 238 ارب ڈالر کی مالیت تک پہنچ گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے ہتھیاروں کی مانگ میں اضافہ ہوا۔
اشتہار
امریکی محکمہ خارجہ نے پیر کے روز کہا کہ سن 2023 میں امریکہ نے غیر ملکی حکومتوں کو ریکارڈ سطح پر 238 بلین ڈالر کے فوجی ساز و سامان فروخت کیے، جو پہلے کے مقابلے میں 16 فیصد کا اضافہ ہے۔
محکمہ خارجہ کے بیان کے مطابق امریکی حکومت نے 81 بلین ڈالر کی فروخت پر بذات خود بات چیت کی، جو کہ سن 2022 کے مقابلے میں 56 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی دفاعی کمپنیوں نے براہ راست غیر ملکی حکومتوں کو فوجی ساز و سامان فروخت کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ اسلحے کی فروخت اور منتقلی کو ''امریکی خارجہ پالیسی کے اہم ٹولز کے طور پر سمجھا جاتا ہے، جس کے ممکنہ طور پر علاقائی اور عالمی سلامتی پر طویل مدتی مضمرات مرتب ہوتے ہیں۔''
امریکی حکومت کا مالی سال اکتوبر میں ختم ہوتا ہے اور اس کی رپورٹ کے مطابق سن 2023 میں پولینڈ نے 12 ارب ڈالر کا اپاچی ہیلی کاپٹر کا آرڈر دیا، جبکہ دس بلین ڈالر ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹمز (ہمراس) خریدنے کے لیے ادا کیے۔
اس کے ساتھ ہی ابرامز ٹینکوں کے حصول کے لیے بھی پولینڈ نے پونے چار ارب امریکی ڈالر خرچ کیے اور انٹیگریٹڈ ایئر اور میزائل ڈیفنس بیٹل کمانڈ سسٹمز پر بھی چار بلین ڈالر کی رقم خرچ کی۔
ملک کے نئے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے بھی پچھلی قدامت پسند حکومت کے طرز پر ہی عسکری جدید کاری کے پروگرام کو جاری رکھنے کے عزم کے اظہار کا کیا ہے۔ اس کا مقصد پولینڈ کو ''یورپ کی سب سے طاقتور بری فوج یا عسکری قوت'' بنانا ہے۔
اس دوران جرمنی نے بھی چنوک ہیلی کاپٹروں کی خریداری کے لیے ساڑھے آٹھ بلین ڈالر خرچ کیے۔ بلغاریہ نے اسٹرائیکر بکتر بند گاڑیوں کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم ادا کی اور ناروے نے ایک بلین ڈالر کی مالیت کے ملٹی مشن ہیلی کاپٹر خریدے۔
جمہوریہ چیک نے جنگی طیارے ایف 35 اور دیگر امریکی جنگی ساز و سامان پر 5.6 بلین ڈالر کی رقم خرچ کی۔
امریکی محکمہ خارجہ میں اسلحہ کی منتقلی کے دفتر کے سربراہ کے مطابق فروخت کی ایک بڑی وجہ روس سے منہ موڑنے والے ممالک بھی ہیں، جنہوں نے روس کے بجائے امریکہ سے اسلحہ خریدا۔ واضح رہے کہ روس بھی کئی دہائیوں سے امریکہ کے بعد ہتھیار فروخت کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا استدلال ہے کہ یوکرین کے لیے امریکی حمایت ہتھیاروں کی فروخت کا سبب بنی جس کے ذریعے ملکی معیشت کو فروغ ملا۔ اس کے باوجود امریکی قانون ساز یوکرین کی براہ راست حمایت ختم کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں اور ریپبلکن امریکی امیگریشن پالیسی کی بحالی کے لیے امداد پر زور دے رہے ہیں۔
بدھ کے روز ہی نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ الاباما میں ہتھیار بنانے والی امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کی میزائل یونٹ کا دورہ کریں گے۔ توقع ہے کہ وہ اتحاد کے لیے امریکی دفاعی صنعت کی اہمیت کو اجاگر کریں گے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، نیوز ایجنسیاں)
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔