1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوئس حکام کو خط، تیسری مرتبہ مزید مہلت

5 اکتوبر 2012

پاکستانی حکومت نے صدر آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کھولنے کے لئے سوئس حکام کے نام مجوزہ خط کے مسودے کی تیاری کے لئے ملکی سپریم کورٹ سے تیسری مرتبہ مزید مہلت حاصل کر لی ہے۔

تصویر: Reuters

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعے کے روز این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ آج وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے سوئس حکام کے نام مجوزہ خط کا ترمیم شدہ مسودہ عدالت میں پیش کیا۔ ججوں نے عدالتی وقفہ کر کے اس مسودے کا جائزہ لیا اور بعد ازاں اسے عدالتی حکم سے عدم مطابقت کی بناء پر مسترد کر دیا۔

جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ خط کا مسودہ عدالتی حکم کی روح کے مطابق نہیں ہے۔ اس موقع پر وزیر قانون نے اس مسودے کے متن کو حساس قرار دیتے ہوئے عدالت میں افشا نہ کرنے کی استدعا کی۔ انہوں نے ججوں سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کی بند کمرے میں سماعت کریں تو ان کے تحفظات دور کیے جا سکتے ہیں۔ اس پر ججوں نے ایک مرتبہ پھر عدالتی وقفہ کرتے ہوئے فاروق نائیک کو اپنے چیمبر میں طلب کر لیا۔

عدالت کا کہنا ہے کہ خط نہ لکھنے کی صورت میں موجودہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو سکتی ہےتصویر: Reuters

چیمبر سے واپسی کے بعد جب عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو وزیرقانون نے کہا کہ انہیں خط کے مسودے پر وزیر اعظم سے مشاورت کے لئے وقت دیا جائے کیونکہ اس بارے میں حتمی فیصلہ وزیر اعظم کو ہی کرنا ہے۔ اس پر عدالت، جس نے 26 ستمبر کی سماعت میں حکومت کو خط کے مسودے کی تیاری کے لئے آج (پانچ اکتوبر) تک کی حتمی مہلت دی تھی، نے مقدمے کی سماعت ایک مرتبہ پھر 10 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں بہت سا سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں، اس لئے اس پیشرفت کو ضائع ہونے سے بچانے کےلئے عدالت حکومت کو مزید وقت دے رہی ہے۔

بعد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق نائیک نے کہا کہ خط کے مسودے پر کچھ عدالت کے اور کچھ ہمارے تحفظات تھے، اس لئے عدالت سے مزید مہلت مانگی گئی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا بار بار بند کمرے کی سماعت سے شفافیت کا پہلو متاثر نہیں ہو رہا، فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا:’’کئی چیزیں الجھی ہوئی ہیں، عدالت کے اندر ان چیزوں کا ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر جج صاحبان نے مجھے اپنے چیمبر میں بلایا ہے تو میں سمجھتاہوں کہ انہوں نے بہت اچھی بات کی ہے۔ اس سے شفافیت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ ہم نے اپنا موقف بیان کیا، ان کا اپنا موقف ہے، اپنی سوچ ہے۔“

صدر آصف علی زرداری اس سارے معاملے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیںتصویر: dapd

دوسری جانب بعض وکلاءکا کہنا ہے کہ عدالت کے مسلسل اصرار اور حکومت کی طرف سے گزشتہ تین سماعتوں کے موقع پر اپنائے گئے رویے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر عدالت اور حکومت کے موقف میں واضح فرق اب بھی موجود ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کے مطابق اصل مسئلہ عدالتی حکم کے مطابق صدر کے خلاف مقدمات کی بحالی کے لئے خط لکھنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت یہ بھی چاہتی ہے کہ حکومت سوئس حکام کے نام خط میں صدارتی استثنیٰ کی بات نہ کرے۔ جسٹس طارق محمود نے کہا:’’حکومت نے اس خط میں یہ ضرور کہنے کی کوشش کی ہو گی کہ اس وقت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے، اس لئے یہ مقدمات نہیں چل سکتے۔ شاید عدالت کو اسی بات پر تحفظات ہیں۔ یہ معاملہ یہاں آ کر رک گیا ہے، یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مقدمے کو بہت پہلے ختم ہو جانا چاہیے تھا۔“

خیال رہے کہ عدالت نے گزشتہ سماعت کے موقع پر کہا تھا کہ پانچ اکتوبر تک حکومت نے سوئس حکام کے نام خط کے مسودے کو حتمی شکل نہ دی تو وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔ اس سے قبل سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی عدالتی حکم کے مطابق سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں پانچ سال کے لئے نا اہلی کی سزا ہوئی تھی۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عدالت کے سامنے حکومتی رویہ دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی عدالتی حکم پر اپنے صدر کے خلاف ایسا خط نہیں لکھے گی، جس سے سوئس مقدمات دوبارہ کھل جانے کا احتمال ہو۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: امجد علی

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں