سوئٹزرلینڈ: ’اوور اسپیڈنگ‘ کرتی بطخ کیمرے نے پکڑ لی
22 اپریل 2018
سوئٹزرلینڈ کے ایک رہائشی علاقے میں حد رفتار تیس کلومیٹر فی گھنٹہ مقرر ہے لیکن وہاں نصب کیمروں نے دو مرتبہ بطخوں کو حد رفتار تجاوز کرتے ہوئے پکڑا۔ تاہم ابھی تک اس ’جرم کا ارتکاب‘ کرنے والی بطخیں پکڑی نہیں گئیں۔
اشتہار
سوئس پولیس کے مطابق ملک کے مغربی حصے میں واقع شہر برن کے ایک رہائشی علاقے ٹریفک کے لیے حد رفتار تیس کلو میٹر فی گھنٹہ مقرر ہے اور اس حد کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑنے کے لیے یہاں ’اسپیڈ کیمرے‘ بھی نصب ہیں۔
ایسے ہی ایک کیمرے نے ’اوور اسپیڈنگ‘ کی مرتکب بطخ کی تصویریں کھینچ لیں۔ بطخ مقررہ حد سے بیس کلو میٹر تیز پرواز کر رہی تھی، یعنی تیس کی بجائے باون کلو میٹر فی گھنٹہ اور وہ بھی ایک مرتبہ نہیں، بلکہ تین روز کے اندر دو مرتبہ کیمرے نے اوور اسپیڈنگ کرنے والی بطخ کی تصویر کھینچی۔
یہ جانور پرندے نہیں ہیں لیکن اُڑتے ہیں
کرہٴ ارض پر ایسے کسی جانور پائے جاتے ہیں، جو پرندے نہیں ہیں لیکن قدرت نے اُنہیں پرواز کی صلاحیت عطا کر رکھی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے پانی اور خشکی کے ایسے چند جانوروں کی تصاویر۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اُڑتی مچھلیاں
عالمی سمندروں میں مچھلیوں کی کئی اقسام پانی کی سطح سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر تیس سیکنڈ تک فضا میں رہ سکتی ہیں۔ گلابی پروں والی یہ مچھلیاں ستّر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے ساتھ سفر کرتے ہوئے چار سو کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتی ہیں۔
تصویر: gemeinfrei
پرندوں کی طرح مچھلیوں کے بھی جھرمٹ
سمندر میں بہت سی مچھلیاں مستقل یا عارضی طور پر بالکل ویسے ہی ایک جھرمٹ کی صورت میں تیرتی ہیں، جیسے کہ پرندے۔ ایسے میں یہ مچھلیاں ایک دوسرے سے یکساں فاصلہ رکھتے ہوئے ایک ہی جیسی حرکت کرتے ہوئے تیرتی ہیں۔
تصویر: Fotolia
پروں والی ایک اور مچھلی
یہ مچھلیوں کی ایک ایسی قسم ہے، جو خطرے کی صورت میں پانی سے باہر ایک بڑی چھلانگ لگانے کے لیے اپنے سینے کے پٹھوں اور چھوٹے چھوٹے پروں کو استعمال کرتی ہے۔ یہ مچھلی جنوبی امریکا کے دریاؤں اور جھیلوں میں پائی جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance / Arco Images
ہشت پا راکٹ
یہ آکٹوپس یا ہشت پا سمندروں میں بہت زیادہ گہرائی میں پایا جاتا ہے، جہاں روشنی بہت ہی کم ہوتی ہے۔ کسی قسم کے خطرے کی صورت میں یہ ایک راکٹ کی صورت میں پانی سے باہر چھلانگ لگا دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایک ’چھوٹے میزائل‘ کی طرح
کسی دشمن کی طرف سے نگل لیے جانے کے خوف سے یہ ہشت پا اپنے پیچھے لگے دو پَر کھول لیتے ہیں اور کسی میزائل کی طرح پانی سے باہر اچھلتے ہیں۔ یہ ہشت پا تقریباً تیس میٹر تک فضا میں رہنے کے بعد نیم دائرے کی صورت میں واپس پانی میں گرتےہیں۔ اس دوران ان کی رفتار گیارہ اعشاریہ دو میٹر فی سیکنڈ تک بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔
پرندہ ہے لیکن اُڑتا نہیں
اس طوطے کا وطن نیوزی لینڈ ہے۔ یہ پرندہ زیادہ تر رات کے وقت خوراک ڈھونڈنے کے لیے باہر نکلتا ہے اور زیادہ تر نباتات پر گزارا کرتا ہے۔ یہ طوطوں کی واحد معلوم قسم ہے، جو اُڑ نہیں سکتی۔
تصویر: picture alliance/WILDLIFE
بقا کے خطرے سے دوچار
یہ طوطا اُڑ نہیں سکتا تو کیا ہوا، اسے درختوں پر چڑھنے اور اترنے میں بے انتہا مہارت حاصل ہے اور یہ چلتے اور اچھلتے ہوئے ایک سے دوسرے درخت پر جاتا ہے۔ طوطوں کی یہ قسم بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔
تصویر: GFDL & CC ShareAlike 2.0
پوشیدہ پروں والی مخلوق
یہ کون سا جاندار ہے؟ دیکھنے میں یہ ایک بچھو لگ رہا ہے؟ کیا خیال ہے کہ یہ اُڑ بھی سکتا ہو گا؟ یہ پوشیدہ پنکھوں والا سیاہ بھونرے جیسی ہیئت رکھنے والا اصل میں ایک رینگنے والا کیڑا ہے۔
تصویر: imago
کاک ٹیل بیٹل
خطرے کی صورت میں یہ بھونرا اپنی دُم بالکل کسی بچھو کی طرح بلند کر لیتا ہے۔ اس کے جسم کی لمبائی پچیس تا اٹھائیس ملی میٹر ہوتی ہے۔ اس کے پَر اس کے جسم کے پچھلے حصے کے اندر چھُپے ہوتے ہیں، جو بوقتِ ضرورت باہر آ جاتے ہیں اور اُن کی مدد سے یہ اُڑ بھی سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Klett GmbH
چمگادڑ کے بچے
آسٹریلیا میں جنگلی حیات کے تحفظ کے ایک مرکز میں یہ چمگادڑ کے بچے ہیں، جن کی عمریں دو سے لے کر تین ہفتے تک ہیں۔
تصویر: cc-by:Wcawikinfo-sa
شکل کتے سے ملتی جُلتی
چمگادڑ کی شکل کسی کتے سے ملتی جُلتی ہے۔ چمگادڑ رات کے وقت اُڑ کر خوراک تلاش کرتے ہیں اور زیادہ تر پھلوں اور پھولوں پر گزارا کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بے ضرر جانور
اس چمگادڑ کے پروں کی لمبائی 1.7 میٹر اور وزن 1.6 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ یہ اس لیے بے ضرر ہوتےہیں کہ یہ گوشت نہیں بلکہ نباتات کھاتے ہیں۔ چمگادڑ سارا دن سر کے بل الٹے لٹک کر سوتے ہیں اور رات کو فعال ہوتے ہیں۔
تصویر: Rainer Dückerhoff
اُڑنے والا سانپ
سانپ عام طور پر پرواز نہیں کرتے لیکن سانپوں کی یہ قسم اُڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خوبصورت ’پرواز‘
یہ سانپ ایک درخت سے ’اُڑ‘ کر دوسرے درخت تک جا رہا ہے۔ اپنے جسم کو خوبصورت دائروں کی شکل میں موڑتے ہوئے یہ سانپ ایک سے دوسرے درخت تک بعض اوقات تیس تیس میٹر لمبی چھلانگ بھی لگاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
14 تصاویر1 | 14
تین روز میں دو مرتبہ حد رفتار کی خلاف ورزی کرنے والی ایک ہی بطخ تھی یا دونوں مرتبہ ’مجرم‘ مختلف تھا؟ یہ واضح نہیں ہو سکا۔ سوئس پولیس نے مقررہ حد سے کہیں تیز پرواز کرنے والی بطخوں کی دونوں تصویریں جاری کرتے ہوئے بتایا، ’’بطخ کم بلندی پر باون کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر رہی تھی جب کہ اس علاقے میں حد رفتار تیس کلو میٹر فی گھنٹہ مقرر ہے۔‘‘
تاہم ابھی تک پولیس اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ دونوں واقعات میں ایک ہی بطخ ملوث تھی یا انہیں بطخوں کے گروہ کا سامنا ہے۔ بہرحال بطخ کی خوش قسمتی ہے کہ اسے کیمرے کی آنکھ نے تو پکڑ لیا لیکن وہ ابھی تک پولیس کے قابو میں نہیں آئی۔
سوئٹزر لینڈ میں مقرر کردہ حد رفتار کی خلاف ورزی کی صورت میں نہ صرف جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ کم از کم ایک ماہ کے لیے ڈرائیونگ لائسنس بھی معطل ہو سکتا ہے۔ اس ملک میں جرمانہ آمدن کو پیش نظر رکھ کر عائد کیا جاتا ہے۔
سن 2010 میں ایک سوئس ڈرائیور کو حد رفتار کی خلاف ورزی کرنے پر دو لاکھ نوے ہزار ڈالر جرمانے کی سزا ملی تھی۔
سوئٹزرلینڈ میں یکم جون کو دنیا کی طویل ترین سرنگ کا افتتاح ہو رہا ہے۔ ایلپس کے پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی ستاون کلومیٹر طویل یہ سرنگ ایرسٹ فیلڈ اور بوڈیو نامی خوبصورت دیہات کو آپس میں ملائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
ایک عظیم منصوبہ
گوٹفریڈ بیسک ٹنل (GBT) سرنگ 17 برسوں میں مکمل ہوئی۔ اس دوران بڑی بڑی بورنگ مشینوں کی مدد سے سوئٹزرلینڈ کے سلسلہٴ کوہ ایلپس میں سے تقریباً 28 ملین ٹن چٹانی مادے نکال کر سرنگ کھودی گئی۔ پھریہ مادے اس سرنگ کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیے گئے۔ یکم جون سے اس سرنگ میں سے ٹرینوں کے آزمائشی سفر تو شروع ہو جائیں گے تاہم اس طرح کے تین ہزار سفر مکمل ہونے سے پہلے اسے معمول کے سفر کے لیے نہیں کھولا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/Keystone/M. Ruetschi
زیادہ ہموار اور آسان سفر
گوٹفریڈ نامی پرانی سرنگ میں سے دن میں ایک سو اَسّی ٹرینیں گزرا کرتی تھیں تاہم اس نئی سرنگ میں سے روزانہ دو سو ساٹھ مال بردار ریل گاڑیاں گزر سکیں گی۔ وجہ یہ ہے کہ نئی سرنگ زیادہ ہموار ہے اور بھاری ٹرینوں کو لے جانے کے لیے کم انجنوں کی ضرورت پڑے گی۔ آئندہ یہ ٹرینیں زیادہ رفتار کے ساتھ بھی سفر کر سکیں گی۔
تصویر: picture alliance/KEYSTONE
مثالی منصوبے کا وقت سے پہلے اختتام
یہ منصوبہ مقررہ وقت سے ایک سال پہلے ہی اور طے کردہ بجٹ میں معمولی اضافے کے ساتھ ہی مکمل ہو گیا ہے۔ اس کی تعمیر میں انجینئروں، ماہرینِ ارضیات اور کنٹریکٹرز سمیت کوئی دو ہزار چھ سو افراد نے حصہ لیا، جن کے کام کے اوقات چار ملین گھنٹے بنتے ہیں۔
تصویر: AlpTransit Gotthard AG
ایک نیا ریکارڈ
اس سرنگ کے ذریعے سوئٹزرلینڈ نے جاپان کا طویل ترین سرنگ کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ جاپان کی سائیکان نامی سرنگ کا افتتاح 1988ء میں ہوا تھا، جس کی تعمیر کے احکامات ایک ہولناک طوفان کے دوران پانچ مسافر بردار کشتیوں کے غرق ہونے کے بعد جاری کیے گئے تھے۔ تب آبنائے سُوگارُو کو محفوظ طریقے سے پار کرنے کے لیے ایک ایسے علاقے میں 53.9 کلومیٹر طویل سرنگ بنائی گئی تھی، جہاں اکثر زلزلوں کا خدشہ رہتا ہے۔
تصویر: Imago/Kyodo News
یورو ٹنل سے بھی سات کلومیٹر لمبی
فرانس اور انگلینڈ کے درمیان 50.5 کلومیٹر طویل سرنگ ’یورو ٹنل‘ کا 37.9 کلومیٹر کا حصہ سمندر کے نیچے بنایا گیا ہے اور یہ اس اعتبار سے دنیا کی طویل ترین سرنگ ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں یکم جون کو جس گوٹفریڈ سرنگ کا افتتاح ہو رہا ہے، وہ ایک تعمیراتی معجزہ قرار دی جانے والی یورو ٹنل سے لمبائی میں سات کلومیٹر زیادہ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Charlet
گوٹفریڈ طویل ترین لیکن کب تک؟
گوٹفریڈ بیسک ٹنل اپنے دنیا کی طویل ترین سرنگ ہونے کے ریکارڈ سے سن 2026ء میں محروم بھی ہو سکتی ہے۔ تب تک BBT یعنی برینر بیسک ٹنل نامی سرنگ کے مکمل ہو جانے کا امکان ہے۔ آسٹریا اور اٹلی کے درمیان تعمیر کی جانے والی برینر سرنگ 64 کلومیٹر لمبی ہو گی۔
سوئٹزرلینڈ کی گوٹفریڈ سرنگ کی تعمیر بہت سے جرمن انجینئرز کی شرکت کے ساتھ وقت سے پہلے اور مقررہ بجٹ میں معمولی سے اضافے کے ساتھ مکمل ہو گئی۔ خود جرمنی میں معاملہ اس کے برعکس ہے، جس کی ایک مثال برلن میں شوئنے فَیلڈ کا نیا ایئرپورٹ ہے، جسے دراصل اب سے ساڑھے چار سال پہلے ہی مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔ اس تصویر میں اس ایئر پورٹ کو جانے والی زیرِ زمین ریلوے سرنگ پر بدستور جاری تعمیراتی کام دیکھا جا سکتا ہے۔